Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں سنگین جرائم میں ملوث ملزمان مقدمات سے کیسے بچ نکلتے ہیں؟

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق کراچی میں رواں سال اب تک 83 افراد کو ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
کراچی میں قتل کی واردات میں ملوث ایک ملزم نے الزام سے بچنے کے لیے جیل کا سہارا لیا اور پرانے مقدمے میں اپنی ضمانت منسوخ کرا کے خود عدالت میں پیش ہوا اور جیل چلا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ستمبر کے آغاز میں گلستان جوہر میں ڈکیتی میں مزاحمت پر ذیشان افضل نامی شخص کو قتل کرنے والے چار ملزموں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ مرکزی ملزم نے خود کو چھپانے کے لیے جیل کا سہارا لے رکھا تھا۔
پولیس نے خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے مرکزی ملزم کے ساتھی یاسر کو گرفتار کیا۔
یاسر نے پولیس کو بتایا کہ ’کراچی کے علاقے گلستان جوہر کامران چورنگی کے پاس انہوں نے دیکھا کہ ایک گاڑی کھڑی ہے جس میں ایک فیملی بیٹھی تھی اور کچھ لوگ آئس کریم کھا رہے تھے، جوہن نے کہا کہ موٹر سائیکل اس گاڑی کے آگے لگا دو۔ میں نے موٹر سائیکل گاڑی کے آگے لگا دی، جوہن موٹر سائیکل سے اترا اور اس نے پستول نکال کر گاڑی میں بیٹھے شخص کو ڈراتے ہوئے اس پر پستول تانا اور گاڑی میں سوار فیملی سے پیسے اور موبائل وغیرہ حوالے کرنے کا کہا۔‘
یاسر کا مزید کہنا تھا کہ ’گاڑی میں سوار شخص نے ہاتھ باہر نکالنے کی کوشش کی تو میرا ساتھی جوہن سمجھا کہ وہ پستول چھین رہا ہے، اس نے فائر کردیا۔ گاڑی میں موجود شخص گولی لگنے سے زخمی ہوا جو بعدازاں دم توڑ گیا۔‘
’ہم وہاں سے فرار ہو گئے اور روپوشی اختیار کر لی۔‘
پولیس کے مطابق ملزم یاسر نے انکشاف کیا کہ اس کے ساتھی جوہن نے خود کو گرفتاری سے بچانے کے لیے اپنے ایک پرانے مقدمے کی ضمانت منسوخ کروا دی اور جیل چلا گیا۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن ضلع شرقی الطاف حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ملزم یاسر کے بیان کے بعد پولیس پارٹی جیل پہنچی اور وہاں ملزم جوہن سے تفتیش کی جس پر ملزم نے قتل کی واردات کا اعتراف کیا۔
’ملزم نے بتایا کہ گلستان جوہر میں پیش آنے والے واقعے کے بعد وہ خوف زدہ ہوگیا تھا اور وہ اپنے پرانے ڈکیتی کے ایک مقدمے میں اپنی ضمانت منسوخ کرا کر جیل آ گیا تھا۔‘
 پولیس کے مطابق شہری کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم کو ساتھی سمیت گرفتار کرکے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ملزمان میں مرکزی ملزم جوہن عرف جوہنی اور یاسر عرف گوگو شامل ہیں۔

پولیس نے خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے مرکزی ملزم کے ساتھی یاسر کو گرفتار کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پولیس نے مزید بتایا کہ ملزم جوہن کی نشاندہی پر پولیس پارٹی نے مزید کارروائی کرتے ہوئے آلہ قتل 30 بور کا پستول اور گولیاں برآمد کیں۔
مقتول ذیشان کی اہلیہ نے بھی عدالت میں شناخت پریڈ کے دوران دونوں ڈکیتوں کو شناخت کر لیا ہے۔ مرکزی ملزم جوہن کے خلاف ڈکیتی اور سنگین جرائم کے تین مقدمات تھانہ بہادرآباد اور عزیز بھٹی میں درج ہیں جبکہ ملزم یاسر کے خلاف دو مقدمات تھانہ گلستان جوہر اور شاہراہ فیصل میں درج ہیں۔
پولیس کے مطابق ’یکم ستمبر کو دونوں ملزمان نے اس واقعے سے قبل شاہراہ فیصل تھانہ کی حدود میں بھی واردات  کی تھی اور شہری کو زخمی کر کے موبائل اور نقدی لے گئے تھے۔‘
مرکزی ملزم جوہن عرف جوہنی تھانہ عزیزآباد کے ڈکیتی مقدمات (1)مقدمہ نمبر 1202 (2)مقدمہ نمبر 1204 میں ضمانت پر تھا۔
کیا جرائم پیشہ افراد چھوٹے مقدمات کا سہارا لے کر بڑے مقدمات سے بچ جاتے ہیں؟
ماہر قانون حسان صابر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’قتل کے مقابلے میں ڈکیتی چھوٹا جرم ہے۔ عام طور پر ثبوت و شواہد اور گواہان کی عدم موجودگی کی وجہ سے ڈکیتی کے مقدمات میں ضمانت آسانی سے مل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس جرم کی سزا بھی قتل کے مقابلے میں کم ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جرائم پیشہ افراد قانون کی آڑ لے کر سنگین مقدمات سے بچنے کے لیے چھوٹے مقدمات میں گرفتاری دے دیتے ہیں۔ اور بڑے جرم کی ہونے والی تحقیقات سے خود کو بچانے کے لیے جیل کو ایک شیلٹر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‘

رواں برس پولیس نے 700 سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا دعوٰی بھی کیا ہے۔ (فوٹو:اے ایف پی)

ان کے مطابق ’پولیس کے پاس کے یہ آپشن موجود ہے کہ وہ گرفتار ملزم کا 164 کا بیان ریکارڈ کروا کر جیل سے ملزم کی کسٹڈی لے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ شواہد اور ثبوت کی روشنی میں بھی ملزم پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔‘
حسان صابر نے مزید بتایا کہ ’جب کوئی کیس ہائی پروفائل بن جاتا ہے یا اس پر بہت زیادہ بات ہونے لگتی ہے تو ادارے بھی اسے حل کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دیتے ہیں۔ ایسے میں جرائم پیشہ افراد خود کو بچانے کے لیے اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔‘
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں رواں سال اب تک 83 افراد کو ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل کر دیا گیا ہے جبکہ پولیس نے 700 سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا دعوٰی بھی کیا ہے۔

شیئر: