سارہ قتل کیس میں ملزم شاہنواز کے والد کو رہا کر دیا گیا
سارہ قتل کیس میں ملزم شاہنواز کے والد کو رہا کر دیا گیا
منگل 27 ستمبر 2022 13:04
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
شاہنواز امیر کو اپنی اہلیہ کو چک شہزاد میں قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ فائل فوٹو
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سارہ انعام قتل کیس میں گرفتار سینئیر صحافی ایاز امیر کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
منگل کو اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عامر عزیز نے ملزم شاہنواز امیر کے والد کے جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ پولیس ریکارڈ میں ایاز امیر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں۔
سینیئر صحافی ایاز امیر کو جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔پولیس کی جانب سے ایاز امیر کو مزید 5 روز کے لیے جسمانی ریمانڈ پر دینے کی استدعا کی گئی جسے ایڈیشنل اینڈ ڈسٹرکٹ سیشن جج محمد عامر عزیز نے مسترد کرتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیا۔
عدالت میں تفتیشی افسر نے بتایا کہ کیس کی تفتیش میں پیش رفت ہو رہی ہے اور ملزم شاہنواز کا اپنے والد کے ساتھ رابطہ ہوا تھا۔ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ مقتولہ کے والد بھی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں اور ان کے پاس ملزم کے والدین کے خلاف ثبوت موجود ہیں۔
ایاز امیر کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں میرے موکل کا کوئی کردار نہیں ہے۔ پولیس کے پاس اب تک موکل کے خلاف کیا ثبوت ہیں جو ان کو گرفتار کیا گیا اور مزید جسمانی ریمانڈ درکار ہے؟
پولیس نے عدالت کو بتایا کہ مقتولہ کے والد کے پاس ملزم کے والدین کے خلاف ثبوت موجود ہیں۔
ایاز امیر کے وکیل بشارت اللہ نے کہا کہ ایاز امیر اپنے گھر چکوال میں موجود تھے جس وقت وقوعہ ہوا اور انہوں نے خود پولیس کو اطلاع دی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’35 برس سے ایاز امیر کا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں جہاں پر واردات ہوئی ہے۔پولیس عدالت کو ابھی تک نہیں بتا سکی کس ثبوت کے تحت ایاز امیر کو گرفتار کیا ہے اور ہماری استدعا ہے کہ ایاز امیر کا نام مقدمہ سے خارج کیا جائے۔‘
ایاز امیر کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم تو تفتیش سے نہیں بھاگ رہے، پولیس نے عدالت سے وارنٹ لے کر گرفتار کر لیا، کوئی ایسا اقدام یا فعل بتا دیں جس سے ایاز امیر کے اس کیس میں ملوث ہونا ثابت ہو۔‘
پراسیکوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ملزم کے وکیل وہ ساری باتیں کر رہے ہیں جو ٹرائل کی ہیں ابھی تو کیس ریمانڈ سٹیج پر ہے۔ کل مقتولہ کے والدین پاکستان پہنچے ہیں انہوں نے ابھی تدفین بھی کرنی ہے۔ ایاز امیر کا واٹس ایپ پر مرکزی ملزم سے رابطہ ہوا۔ ابھی تک تو یہی ثبوت ہیں۔‘
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ’اگر کسی سٹیج پر ہمیں لگا کہ ایاز امیر بے گناہ ہیں تو ہم ان کو خود مقدمہ سے ڈسچارج کر دیں گے۔ مقتولہ کے والدین نے ایاز امیر کو مقدمے میں نامزد کیا ہے۔‘
ایڈشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس بادی النظر میں ایاز امیر کے خلاف کیا ثبوت ہیں؟
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ’مقتولہ کے قتل کے بعد ملزم کا اپنے والد سے رابطہ ہوا، مقتولہ کے والدین کے پاس ایاز امیر کے خلاف سارے ثبوت موجود ہیں۔‘
ایاز امیر کے وکیل بشارت اللہ نے دلائل دیے کہ ’پولیس ایک بٹن دبائے تو کال ریکارڈ ڈیٹا سامنے آ جاتا ہے۔ والد کا بیٹے کے ساتھ رابطہ وقوعہ کے بعد ہوا، باپ کا بیٹے کے ساتھ اگر رابطہ ہو تو کیا والد پر جرم میں اعانت کا مقدمہ درج کریں گے؟ اس طرح تو ملزم کا جس سے بھی رابطہ ہو اسے شریک ملزم بنا دے گی۔‘
’پولیس خود کہہ رہی ہے کہ بے گناہ ہوئے تو ڈسچارج کر دیں گے تو جو جگ ہنسائی ہوئی ان کی اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پولیس کا حال یہ ہے کہ وہ بندہ گرفتار کر کے ثبوت ڈھونڈ رہی ہے۔‘
سرکاری وکیل نے کہا کہ واٹس ایپ کال ریکارڈ ڈیٹا نہیں ہوتا، ملزم کا موبائل فون فرانزک کے لیے بھیج دیا ہے۔
ایاز امیر کے وکیل نے استدعا کی کہ ملزم کو مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے، وہ شامل تفتیش ہوں گے اور اگر ان کے خلاف کوئی ثبوت ملے تو وارنٹ جاری کر کے گرفتار کر لیں۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد پولیس کی ایاز امیر کو مزید 5 روز جسمانی ریمانڈ پر دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ایاز امیر کا نام مقدمے سے ڈسچارج کرنے کا حکم دے دیا۔