جس جہاد میں آپ خود شریک ہوئے اسے غزوہ کہتے ہیں اور جس میں آپ نہیں گئے، صحابہ کرام کو بھیجا اسے سرایا کہتے ہیں
* * * مولانا ڈاکٹر عبدالرزّاق اسکندر ۔کراچی * * *
نسب شریف: سیّدنا محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔کنیت: ابو القاسم۔ وَالدہ کا نام: آمنہ بنت وہب۔ وِلادت: بروز دوشنبہ 12 ربیع الاوّل عام الفیل۔ وَالد ماجد کا اِنتقال وِلادت سے قبل ہی بحالتِ سفر مدینہ منورَہ میں ہوچکا تھا۔ آپ کی کفالت آپ کے دادا عبد المطلب نے کی اور حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا۔ پھر آپ کی عمر مبارک6 سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو مدینہ آپ کے ننہال لے گئیں، واپسی میں بمقامِ ابوا اُن کا انتقال ہوا اور آپ کی پرورش اْمّ ایمن کے سپرد ہوئی۔ 8 سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اْٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپ کے چچا ابو طالب نے لیا۔ 9سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور 25سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے 2ماہ بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے عقد ہوا۔ 35سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے۔ حجرِ اسود کے بارے میں قریش کے اْلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا جس پر سبھی خوش ہوگئے۔
تعلیم و تربیت: آپ یتیم پیدا ہوئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا مگر آپ بغیر کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک و صاف رہے بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ کو صادق و امین کا خطاب دیا۔ مری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی خلوت و عبادت: بچپن میں چند قیراط پر اہلِ مکہ کی بکریاں بھی چرائیں مگر بعد میں آپ کو خلوت پسند آئی چنانچہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ نبوت سے پہلے آپ سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔ آپ کا دستورِ تعلیم: حضورِ اکرم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اْمت کے لئے مینارِ ہدایت ہے۔ اگرچہ آپ کا تشریعی دور، نبوت کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا اْمت کے لئے اس میں ہدایت موجود ہے۔ آپ کے دودھ پینے کا زمانہ ہے لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپ کو عدل و انصاف پسند ہے اور آپ دوسروں کا خیال فرماتے ہیں۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا ایک طرف کا دودھ پلاکر دوسری طرف پیش فرماتی ہیں لیکن آپ اسے قبول نہیں فرماتے کیونکہ وہ آپ کے دودھ شریک بھائی کا حق ہے۔ بچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاؤ اور دلچسپی ہے کہ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ بھی قریشِ مکہ کے ساتھ پتھر اٹھاکر لا رہے ہیں۔ اور شرم وحیاء اتنی غالب ہے کہ جب آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ دیکھتے ہیں کہ آپ ننگے کندھے پر پتھر اْٹھاکر لارہے ہیں تو ترس کھاتے ہوئے آپ کا تہ بند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپ شرم کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑے، یہ فرماتے ہوئے کہ میری چادر مجھ پر ڈال دو۔
کسب حلال کی یہ اہمیت کہ قریش کی بکریاں چَراتے اور اس کی مزدوری سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور’’ التاجر الصدوق الامین ‘‘(امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔ معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیت ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھنے پر قریش کی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا اور قریب تھا کہ ناحق خون کی ندیاں بہہ جاتیں لیکن آپ نے ایسا فیصلہ فرمایا جس کی سب نے تحسین کی اور اس پر راضی ہوگئے۔ صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ الصادق الامین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپکے اس وصف کا اقرار کرتے تھے چنانچہ قبائل قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ہم نے بارہا تجربہ کیا مگر آپ() کو ہمیشہ سچا پایا۔ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی کیونکہ آپ کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لئے مقتدیٰ بنانا تھا اور امت کے لئے آپ کی زندگی کو بطورِ اْسوۂ حسنہ پیش کرنا تھا۔ ’’(بلاشہ اے مسلمانو! )تمہارے لئے رسول اللہ( ) کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے ہر اْس شخص کے لئے جو اللہ کی ملاقات کا اور قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔‘‘(الاحزاب21)۔ نبوت: جب سنِ مبارک40 کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔
آپ غارِ حرا میں تھے کہ جبرئیل علیہ السلام سورۃ اقر اء کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے، اس کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد بند رہی، پھر لگاتار آنے لگی۔ وحیٔ آسمانی آپ تک پہنچانے کے لئے جبرئیلِ امین علیہ السلام کا انتخاب ہوا جن کو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔ ’’بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو بڑی قوت والا صاحبِ عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔‘‘(التکویر19تا21)۔ اس وحیٔ اِلٰہی کی روشنی میں آپ کی ایسی تربیت ہوئی کہ آپ ہر اعتبار سے کامل بن گئے اور آپ کی زندگی کا ہر پہلو اْمت کے لئے ایک بہترین اْسوۂ حسنہ بن کر سامنے آگیا۔ امت کے ہر فرد کے لئے آپ کی زندگی ایک اعلیٰ مثال ہے، جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کرسکتاہے۔ دعوت و تبلیغ: اِبتداء میں آپ نے پوشیدہ طور پر دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرمایا۔ ابتدائی دعوت پر عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، آزاد شدہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اِیمان لائے۔ان کے بعد بہت سے آزاد اور غلام اس دولت سے بہرہ مند ہوئے۔ پھر آپ کو علانیہ دعوت و تبلیغ کا حکم ہوا چنانچہ آپ نے تمام قوم کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی دعوت پوری قوت سے شروع کی، بعض نے مانا اور بعض اپنی گمراہی پر قائم رہے۔
ہجرتِ حبشہ: قوم نے آپ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو طرح طرح سے ستانا شروع کیا، چنانچہ5 ء نبوی میں آپ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو حبشہ ہجرت کرجانے کا حکم فرمایا۔یہ سب سے پہلی ہجرت تھی، اسی سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ 7 ء نبوت: اس سال قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کیخلاف ایک معاہدہ پر دستخط کیے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت کو ہمارے حوالے نہیں کرتے اْس وقت تک ان سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں آپ کو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شعب ابی طالب میں نظر بند کردیا گیا۔ آپ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہجرتِ حبشہ کا حکم فرمایا۔ یہ دوسری ہجرت کہلاتی ہے۔ 10ء نبوت: اس سال قریش کے بعض افراد کی کوشش سے یہ معاہدہ ختم ہوا اور آپ کو آزادی ملی۔اسی سال نجران کے نصاریٰ کا ایک وفد مسلمان ہوا، اسی سال آپکے چچا ابو طالب اور آپ کی غم گسار زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ قریش کی اِیذا رسانی اور بڑھ گئی۔ آپ اہل طائف کی تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے۔ اْنہوں نے ایک نہ سنی بلکہ اْلٹا درپے ایذاء ہوئے۔ یہ سال عام الحزن (غم کا سال) کہلاتا ہے۔ 11ء نبوت: اس سال آپ کو معراج ہوئی۔پنجگانہ نماز فرض ہوئی، آنحضرت نے حج کے موقع پر عرب کے مختلف قبائل کو دعوت دی چنانچہ مدینہ کے قبیلہ خزرج کے 6 آدمی مسلمان ہوئے۔ 12 نبوت: اس سال اوس و خزرج کے 12 افراد نے آپ سے بیعت کی۔ یہ بیعت’’ عقبۂ اولیٰ‘‘ کہلاتی ہے۔ 13 نبوت: اس سال مدینہ کے 17 مردوں اور 20 عورتوں نے آپ سے بیعت کی، یہ بیعت ’’عقبۂ ثانیہ‘‘ کہلاتی ہے۔ ہجرتِ مدینہ: مدینہ میں اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل چکی تھی۔ آپ نے صحابہ کرامؓ کو ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا۔ قریش کو پتہ چلا تو اْنہوں نے دار الندوۃ میں آپ کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپکے گھر کا محاصرہ کرلیا۔اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا۔ آپ کو ہجرت کا حکم ہوا۔ آپ کافروں کے گھیرے سے باطمینان نکلے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، یہاں3 دن رہے، پھر ہجرت فرمائی اور مدینہ کی نواحی بستی قُبا پہنچے۔ 1ہجری،اِسلام کا نیا دور: یہاں سے اِسلام کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ قبا میںآپ کا 14دن قیام رہا، وہاں ایک مسجد بنائی، وہاں سے مدینہ طیبہ منتقل ہوئے۔ آپنے حضرت ابو ایوب اَنصارِی رَضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا ،مسجد نبوی ؐ کی تعمیر فرمائی، اذان شروع ہوئی اور جہاد کا حکم ہوا اور آپ نے دعوت و جہاد کے لئے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعتیں بھیجنا شروع کیں۔ سرایا و غزوات: جس جہاد میں آپ خود شریک ہوئے اسے غزوہ کہتے ہیں اور جس میں آپ نہیں گئے، صحابہ کرام ؓ کی جماعت کو بھیجا اسے سرایا کہتے ہیں۔ آپکے سرایا کی تعداد 47 اور غزوات کی تعداد27ہے۔
اس سال آپ نے 3 دستے (سریے) روانہ فرمائے لیکن مقابلہ نہیں ہوا۔ 2 ہجری: اس سال غزوۂ دْوّان، غزوۂ بواط، غزوۂ عشیرہ اور غزوۂ بدر صغریٰ ہوئے۔ تحویلِ قبلہ کا حکم ہوا، روزۂ رمضان، زکوٰۃ و فطرہ واجب ہوئے۔ اسی سال (رمضان میں) مشہور غزوۂ بدر ہوا، آپکے ساتھ313جاں نثار تھے اور قریش ایک ہزار مگر شکست قریش ہی کو ہوئی۔ ان کے سردار مارے گئے اور 70 قید ہوئے، مسلمانوں کے 14آدمی شہید ہوئے۔ اسی سال غزوۂ قرقرۃ الکدر، غزوۂ بنی قینقاع اور غزوۂ السویق ہوئے، تینوں میں جنگ نہیں ہوئی۔ سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حضور کے گھر رْخصتی ہوئی۔ 3ہجری: اس سال غزوۂ غطفان اور غزوۂ بحران ہوئے۔ مقابلہ نہیں ہوا، پھر مشہور جنگ اْحد ہوئی۔قریش قبائلِ عرب کو اکٹھا کر کے بدر کے مقتولوں کا بدلہ لینے جبلِ اْحد کے پاس جمع ہوئے۔ رسول اللہ ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدینہ سے باہر نکلے۔ 300منافق راستہ ہی میں پلٹ گئے۔ دامنِ اْحد میں دونوں فوجیں لڑیں، کفار کو شکست ہوئی۔ ایک درّہ پر آپ نے تیر اندازوں کی ایک جماعت اس وصیت کے ساتھ مقرر فرمائی تھی کہ ہم مریں یا جئیں تمہیں بہرحال تاحکم ثانی اپنی جگہ رہنا ہوگا۔ ان میں سے بعض نے مسلمانوں کی فتح اور کافروں کی شکست دیکھ کر جگہ چھوڑ دی۔ دشمن کو لوٹ کر پیچھے سے حملہ کا موقع مل گیا، جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، 70صحابہؓ شہید ہوئے جن کے سردارسیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ کا چہرۂ اَنور زخمی ہوا، سامنے کے دندانِ مبارک شہید ہوئے۔ اگلے دن آپ قریش کے تعاقب میں حمراء الاسد تک گئے مگر دشمن بچ نکلا، مقابلہ نہیں ہوا، اسی سال شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ (جاری ہے)