Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرکاری افسران حکومت کے مخالفین پر مقدمات کیوں بناتے ہیں؟

شہباز شریف نے ملک واپسی کا اعلان کیا تو پولیس نے مسلم لیگ ن کے کسی رہنما کو استقبال کے لیے گھر سے نہ نکلنے دیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ مئی 2004 کی بات ہے۔ پنجاب کا کسان گندم کی فصل سمیٹ رہا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت اپنے زوروں پر تھی۔ سیاسی جماعتیں اپنی بقا کے لیے پریشان تھیں کیونکہ ق لیگ کے علاوہ مرکزی دھارے کی تمام جماعتیں زیر عتاب تھیں۔ ایسے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے جلا وطن دونوں قائدین میں سے ایک شہباز شریف نے اچانک وطن واپسی کا اعلان کر دیا، اور لندن سے براسطہ ابوظبی لاہور پہنچنے کا فیصلہ کیا۔
ان کے اس اعلان نے مسلم لیگ ن کے ارکان کو وہ خوشی دی جو کسان کو فصل ملنے پر مل رہی تھی۔
اسی دھن میں مسلم ن لیگ نے شہباز شریف کا لاہور ایئرپورٹ پر استقبال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہر جگہ سے ارکان اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز نے تیاریاں شروع کر دیں لیکن پولیس نے کسی بھی رہنما کو اپنے گھر سے ہی نکلنے نہ دیا۔
گجرات سے ن لیگی رہنما جو اس وقت صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈر تھے ایک جلوس کے ساتھ گجرات کے علاقے ڈنگہ سے لاہور کے لیے نکلے لیکن چند کلومیٹر بعد ہی نہر اپر جہلم کے پل پر پولیس نے انہیں روک لیا۔
جذباتی کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا اور کئی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ قافلہ مجبوراً رک گیا لیکن اس کے باوجود پولیس نے کم و بیش 55 افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا۔
گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں یہ مقدمہ کئی سال تک چلتا رہا۔ لیگی رہنما اپنے ساتھیوں سمیت کئی سال تک ڈنگہ سے گوجرانوالہ پیشیاں بھگتنے جاتے رہے۔

موجودہ حکومت کے دور میں عمران خان کے خلاف کئی مقدمات درج کیے گئے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ مقدمہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک جنرل پرویز مشرف مسند اقتدار پر براجمان رہے۔
ملک سے آمریت کا سورج غروب ہونے کے بعد عدالت نے انہیں ساتھیوں سمیت بری کر دیا۔ بریت کی بڑی وجہ پولیس کی جانب سے عدالت کے سامنے اس بات کا اقرار تھا کہ ’دہشت گردی کی دفعات سیاسی بنیادوں پر مقدمے میں شامل کی گئی تھیں۔‘
پاکستان میں پولیس اور سول بیوروکریسی کی طرف سے مقدمات بنانے اور وقت بدلنے پر انہیں بیک جنبش قلم ختم کر دینے کی یہ واحد مثال نہیں۔
رواں برس اپریل میں وفاقی حکومت کی تبدیلی کے بعد چھ ماہ کے دوران جہاں سابق اپوزیشن لیڈر اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں پر بنے ہوئے کئی مقدمات ختم ہوئے وہی سابق وزیراعظم عمران خان اور ان ساتھیوں کے خلاف بھی کئی مقدمات درج کیے گیے۔
جب چند ماہ کے دوران صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں بار بار بدلیں تو اس دوران متحارب جماعتوں کے سیاست دانوں پر مقدمات کی صورت حال بھی تبدیل ہوتی رہی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو ایسے مقدمات کو سیاسی انتقام کہتی ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے مخالفین کے خلاف بھی ایسے ہی مقدمات بنا رہی ہوتی ہے۔

’پاکستان کا پولیس نظام سیاسی ہو چکا ہے‘

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سیاسی انتقام ہے تو پولیس، بیوروکریسی، نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے اور ان کے افسران حکومت کے غیرقانونی احکامات پر عمل کرنے سے انکار کیوں نہیں کرتے؟
پنجاب پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) خواجہ خالد فاروق نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میں پولیس کا پورا نظام سیاسی ہو چکا ہے۔‘

سابق آئی جی پنجاب خواجہ خالد فاروق نے کہا کہ ’پولیس افسران کے تقرر و تبادلے سیاسی پسند ناپسند کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’پولیس افسران کے تقرر و تبادلے سیاسی پسند ناپسند کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ جب ایک آئی جی تعینات ہوتا ہے تو اس کی سروس کے ایک دو سال باقی رہ چکے ہوتے ہیں۔ اگر وہ وزیراعلٰی کے احکامات نہیں مانتا تو اسے اپنی ملازمت کا باقی عرصہ گھر بیٹھ کر کسی پوسٹنگ کے بغیر گزارنا پڑتا ہے۔ جو کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا۔
خواجہ خالد فاروق کے مطابق ’اگر پولیس آرڈر 2002 پر عمل درآمد ہو جاتا تو یہ سلسلہ رک جاتا کیونکہ اس میں افسران کے تقرر و تبادلے کے لیے مرکزی اور صوبائی سطح پر کمیٹیوں اور ہر بڑی تقرری کی مدت کا تعین کیا گیا تھا۔’
’اس نظام کے تحت کسی بھی افسر کے تبادلے کے لیے حکومت کو ان کمیٹیوں کو ٹھوس وجوہات بتانا تھیں لیکن یہ نظام ق لیگ، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف سمیت کسی کے حق میں نہیں تھا، اس لیے کسی نے بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔

’مقدمہ بنانے والے ہی مقدمہ ختم کرنے کا راستہ چھوڑتے ہیں

سابق آئی جی پنجاب کا کہنا تھا اگرچہ پولیس افسران قانون کے پابند ہیں لیکن مروجہ قوانین کے مطابق وہ سیاسی حکومتوں کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ اس لیے جب بھی کسی سیاسی رہنما کے خلاف مقدمہ بنانے کا حکم آتا ہے تو پولیس افسران وہ مقدمہ درج کر لیتے ہیں۔
’اگر تو کسی نے جرم کیا ہو تو اس پر قانونی طریقے سے دفعات لگتی ہیں۔ تاہم جرم ہونے یا نہ ہونے، دونوں صورتوں میں مخصوص دفعات تلاش کر کے مخالف پر لگائی جاتی ہیں۔‘
خواجہ خالد فاروق نے بتایا کہ ’افسران جن کو قانونی موشگافیوں کا پتہ ہوتا ہے اور ان کو یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس مقدمے نے بالآخر ختم ہی ہونا ہے، اس لیے وہ جان بوجھ کر اس میں کوئی نہ کوئی ایسی کمی ضرور رکھتے ہیں کہ اگر اس کو دوبارہ کسی نئے حکم کے تحت واپس لینا پڑے تو باآسانی واپس لے سکیں۔

سابق آئی جی پنجاب خواجہ خالد فاروق کے مطابق پولیس افسران مروجہ قوانین کے مطابق سیاسی حکومتوں کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بیوروکریسی میں سیاسی گروہ بندی

سابق سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ و کابینہ ڈویژن رؤف چوہدری نے کہا کہ بھٹو دور سے پہلے بیوروکریسی آزاد تھی، یعنی وہ سیاسی حکومتوں کے قانونی احکامات کے علاوہ کوئی حکم ماننے کی پابند نہیں تھی۔ بھٹو دور میں ایسے کئی اقدامات اٹھائے گئے اور ٹریبونلز بنائے گئے جن کے تحت بیوروکریسی سیاسی حکمرانوں کے احکامات کی پابند بن گئی۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وقت کے ساتھ کچھ کام ایسے ہوئے کہ اب سرکاری افسران کے پاس نہ کا آپشن رہا ہی نہیں ہے۔ ایک تو بیوروکریسی میں گروپنگ ہے۔ ایک گروپ ن لیگ، دوسرا پی پی پی، تیسرا پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ساتھ ہے۔ یہ جماعتیں اپنے من پسند بیوروکریٹس کو نوازتی ہیں۔ اچھی پوسٹوں پر لگاتی ہیں۔‘
’اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ حکومت تبدیل ہوتی ہے تو بڑے پیمانے پر تقرر و تبادلے ہوتے ہیں۔ اعظم خان کی مثال آپ کے سامنے ہے کہ ایک وقت میں وہ طاقتور بیوروکریٹ تھا اور حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی وہ او ایس ڈی بن کر بیٹھا ہے۔

سرکاری افسران کو مراعات کا لالچ

رؤف چوہدری کے مطابق دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی افسر ایک عرصے سے پنجاب میں ہے اور اس کے بچے وہاں پڑھ رہے ہیں، گھر گاڑی کی سہولت ہے اور وہ انکار کرتا ہے تو صوبائی حکومت فوراً کہتی ہے کہ اسے وفاق میں بھیج دو۔
’وفاق میں آنا برا نہیں ہے لیکن ایک تنخواہ دار کے لیے پوری فیملی کو شفٹ کرنا، نئی جگہ بچوں کے داخلے کروانا اور باقی انتظامات کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ اس لیے افسران یہ چھوٹے چھوٹے فوائد لینے اور مشکلات سے بچنے کے لیے حکومت کے تمام احکامات مانتے چلے جاتے ہیں۔‘

سابق سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ وکابینہ ڈویژن رؤف چوہدری کے مطابق ’بیوروکریسی میں ایک گروپ ن لیگ، دوسرا پی پی پی، تیسرا پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ساتھ ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے سابق آئی جی پنجاب خواجہ خالد فاروق کی اس بات سے اتفاق کیا کہ ’افسران کو جب معلوم ہو کہ احکامات سیاسی نوعیت کے ہیں تو وہ مشورہ دیتے وقت کچھ نہ کچھ ایسا نکتہ چھوڑ دیتے ہیں جو حکومت تبدیلی کی صورت میں ان احکامات کو ختم کرنے میں مدد دے سکے۔‘

’ہمارے ادارے آزاد نہیں ہیں‘

سیاسی مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے پاکستان میں جس ادارے کا سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور عدالتوں کی جانب سے اسے پولیٹیکل انجینیئرنگ کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے وہ نیب ہے۔
نیب میں ایسے ایسے مقدمات بھی بنتے ہیں جن میں کئی کئی سال ریفرنس تک دائر نہیں ہوتا اور جن کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہوتی ہیں ان کے ساتھ مجرموں سا سلوک کیا جاتا ہے۔
نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق ایڈووکیٹ نے اس صورت حال پر اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانونی طور پر تو تمام ادارے، افسران، بیوروکریسی اور عدلیہ اس بات کے پابند ہیں کہ وہ صرف اور صرف قانون کے تابع رہیں لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے بیوروکریسی، ادارے اور عدلیہ بھی بعض اوقات ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ ان پر سوال اٹھتے ہیں۔
’سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے فیصلوں پر اعتراضات سب کے سامنے ہیں۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کے اعترافات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ادارے بشمول عدلیہ آزاد نہیں ہیں۔ وہ دباؤ میں آتے ہیں اور افسران اپنے ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ جھوٹے مقدمات بناتے ہیں، عدالتیں ان مقدمات کو سنتی ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ مقدمے میں دم نہیں ہے اسے اس وقت تک لٹکاتی ہیں جب تک مقدمات بنوانے والوں کے مقاصد پورے نہیں ہوجاتے۔‘

نیب میں ایسے ایسے مقدمات بھی بنتے ہیں جن میں کئی کئی سال ریفرنس تک دائر نہیں ہوتا۔ (فوٹو: آن لائن)

عمران شفیق کے ایڈوکیٹ کے مطابق اگر تو مقدمہ ٹھوس ہو اور حقائق پر بنایا گیا ہو۔ واقعی جرم ہوا ہو تو اس کی تو نوعیت ہی الگ ہوتی ہے اور اگر مقدمہ فرمائشیں کر کے بنایا گیا ہو تو اس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے اور عدالتوں میں اسے ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
عمران شفیق نے کہا کہ پاکستانی معاشرہ بھی حکمران کے احکامات کو انکار کرنے والوں کو کچھ زیادہ نہیں سراہتا۔ ’طاقتور ادارے بھی ایک طرف ہوتے ہیں تو پھر ایماندار افسران (اور حکمرانوں کے ناجائز احکامات کو انکار کرنے والوں کو) اپنی ایمانداری کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔‘

شیئر: