Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’تحریک انصاف نے فوج کو نیب قانون سے باہر رکھنے پر اعتراض کیوں نہیں اٹھایا‘

وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ فوج کے زیر اہتمام کارپوریشنز کے سربراہان کو استثنیٰ حاصل نہیں۔ فائل فوٹو: اردو نیوز
پاکستان کی سپریم کورٹ میں نیب قانون میں ترامیم کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ فوج کو نیب قانون کے ذریعے احتساب سے استثنیٰ کیوں دیا گیا ہے؟ 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’حیرت ہے تحریک انصاف نے فوج کو نیب قانون کی دسترس سے باہر رکھنے پر اعتراض کیوں نہیں اٹھایا۔‘
بدھ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ 
سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ پبلک آفس ہولڈرز کو نیب قانون سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنٰی نہ ملا ہو، تحصیل کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے فیصلے بھی مستثنٰی ہو گئے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بظاہر افسران اور عوامی عہدیداران کو فیصلہ سازی کی آزادی دی گئی ہے۔ ’اگر کسی فیصلے سے کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچتا ہے اور متعلقہ افسر کو مالی فائدہ نہیں پہنچتا تو اس میں حرج کیا ہے؟‘
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایسے فیصلہ سازوں سے ہی ماضی میں آٹھ ارب سے زائد کی ریکوری ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا ریکوری عوامی عہدیداران سے ہوئی تھی؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عوامی عہدیداروں کے لیے پیسے پکڑنے والوں سے ریکوری ہوئی تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہر سرکاری فیصلے کا کسی نہ کسی طبقے کو فائدہ ہوتا ہی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جب تک پہنچایا گیا فائدہ غیر قانونی نہ ہو تو کوئی قباحت نہیں۔ ’مخصوص افسر کو غیر قانونی فائدہ پہنچانے پر اس کے خلاف کارروائی نہ ہونا غلط ہے، اب تو کسی ریگولیٹری اتھارٹی اور سرکاری کمپنی پر نیب ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ افواج پاکستان کو نیب قانون کی دسترس سے باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ ملک میں سارے بڑے کاروبار تو انہی کے ہیں۔ ’حیرت ہے تحریک انصاف نے فوج کو نیب قانون کی دسترس سے باہر رکھنے پر اعتراض کیوں نہیں اٹھایا. قانون کے مطابق ججز کو بھی استثنیٰ نہیں، ججز کے حوالے سے کوئی پردہ داری ہو تو علیحدہ بات ہے، احتساب کے لیے دیگر ادارے بھی موجود ہیں۔‘

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ عدالت پارلیمان کے بنائے قانون کے ڈیزائن تبدیل نہیں کر سکتی۔ فائل فوٹو: اردو نیوز

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ فوج کے زیر اہتمام کارپوریشنز کے سربراہان کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ 
خواجہ حارث نے اپنے دلائل آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم کے ذریعے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرائم کو ختم کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اثاثوں کا آمدن سے محض زائد ہونا کافی نہیں، اثاثہ جات میں کرپشن یا بے ایمانی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کل کو کوئی عدالت آ کر کہے کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات پر پھانسی ہونی چاہیے۔ ’ہم پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کے ڈیزائن تبدیل نہیں کر سکتے۔ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اس میں بنیادی انسانی حقوق کہاں متاثر ہوتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں بھی توازن ہوتا ہے۔ ’عام شہری کے حقوق ہیں تو دوسری طرف قومی مفاد اور معاشرے کے بھی بنیادی حقوق ہیں، دونوں کے مابین توازن ہونا چاہیے۔ آپ انفرادی فائدہ ملنے کو معاشرے کے حقوق کے ساتھ لنک کر رہے ہیں۔ اگر دیگر فورمز پر کیسز جائیں تو کیا ہوگا ہمیں اس پر معاونت درکار ہے، نیب قانون عوام مفاد کے لیے نقصان دہ کیسے ہے، یہ سوال اہم ہے۔‘
وکیل نے جواب دیا کہ کرپشن پر نیب کی کارروائی کی حد 50 کروڑ روپے سے کم کر کے دس کروڑ بھی ہو سکتی ہے، ہمارا اعتراض نیب قانون کا اطلاق ماضی سے کرنے پر ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

شیئر: