پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کا رجحان کیوں نہیں؟
پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کا رجحان کیوں نہیں؟
بدھ 26 اکتوبر 2022 5:38
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والوں پر کم از کم 2000 روپے جرمانہ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آبادی اور ٹریفک بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا مربوط نظام نہ ہونے کی وجہ سے آبادی کا ایک بڑا حصہ آمد و رفت کے لیے ذاتی سواری کا استعمال کرتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں ان مسائل کا سامنا سب سے زیادہ ہے۔
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ٹریفک پولیس نے ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی طرح کی تحقیقات کروائی ہیں جن میں حیرت انگیز اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔
ٹریفک پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں اس وقت 77 لاکھ موٹر سائیکل اور گاڑیاں چلائی جاتی ہیں، جبکہ سات لاکھ افراد نے گاڑی یا موٹرسائیکل چلانے کے لائسنس لے رکھے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں 90 فیصد ڈرائیور بغیر لائسنس کے ہی سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں۔
حال ہی میں صوبے کی ہائیکورٹ نے بغیر ڈرائیونگ لائسنس کے گاڑی چلانے والوں پر کم از کم دو ہزار روپے جرمانہ کرنے کے احکامات دیے ہیں۔ اس سے پہلے قانونی طور پر گاڑیوں کے لیے یہ جرمانہ 500 روپے، جبکہ موٹرسائیکلوں کے لیے 200 روپے تھا۔
سٹی ٹریفک پولیس چیف (سی ٹی او) منتظر مہدی نے اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ایک بدقسمت صورت حال ہے کہ لوگ بالکل بھی ٹریفک لائسنس بنانے کا رجحان نہیں رکھتے۔ ابھی ہم نے ہائی کورٹ کے حکم سے جرمانے کی رقم بڑھا دی ہے اس کے باوجود بھی اس رجحان میں کمی واقع نہیں ہوئی۔‘
لوگ ڈرائیونگ لائسنس کیوں نہیں بنواتے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے چیف ٹریفک آفیسر کا کہنا تھا کہ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں سے ایک قوانین پر عمل کرنا ہماری عادات میں شامل نہیں ہے۔
’اور یہ صرف لاہور کی بات نہیں جو اعداد و شمار ہمارے پاس ہیں پشاور سے کراچی تک یہی صورت حال ہے۔ بلکہ جتنی کوشش ہم کر رہے ہیں اور جو سہولیات ڈرائیونگ لائسنس بنانے کی ہم نے دے رکھی اتنی کسی اور شہر میں نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کی سہولت کے لیے ایک دفتر 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے۔
’یعنی اگر آپ صبح پانچ بجے بھی اپنا ڈرائیونگ لائسنس بنوانا چاہتے ہیں تو مناواں کے علاقے میں ہمارے سنٹر سے آپ بغیر رکاوٹ کے بنوا سکتے ہیں۔‘
قانون سے متعلق اجتماعی رویے سے ہٹ کر سی ٹی او منتظر مہدی کا کہنا تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کا جدید نظام نہ ہونے کی وجہ سے اتنی تیزی سے ٹریفک بڑھ رہی ہے کہ اب تو سڑکیں بھی جواب دے گئی ہیں۔
’ہر سڑک پر اپنی اصل کیپسٹی سے کئی گنا زیادہ ٹریفک کا دباؤ ہے۔ جس وجہ سے لوگ اپنے روز مرہ کے کاموں میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ ڈرائیونگ لائسنس بنوانا ان کی ترجیح ہے ہی نہیں۔‘
ٹریفک پولیس کیا اقدام کر رہی ہے؟
پولیس کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ٹریفک لائسنس بنوانے پر مجبور کرنے کے لیے کئی طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے اس حوالے سے جامع سفارشات حکومت کو بھیجی گئی ہیں جن پر عمل درآمد پر صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔
خیال رہے کہ سڑکوں پر موٹرسائیکل، گاڑیاں اور رکشے چلانے والوں کی ایک بڑی تعداد کم عمر نوجوانوں کی بھی ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق رواں سال کے دوران 42 ہزار 667 کم عمر ڈرائیورز کےخلاف کارروائی کی گئی۔ ملکی قانونی کے مطابق جس شخص کا شناختی کارڈ نہیں بنا وہ ڈرائیونگ لائسنس بھی حاصل نہیں کر سکتا۔
سٹی ٹریفک پولیس چیف نے بتایا کہ حکومت کو تجویز دی ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہ کرنے والوں پر کم سے کم جرمانہ 5000 روپے کیا جائے۔
’پوری دنیا میں یہ جرمانہ اتنا زیادہ ہے کہ کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ بغیر لائسنس کے سڑک پر موٹرسائیکل یا گاڑی لے آئے۔ دبئی سمیت کئی ملکوں میں تو جرمانے کے ساتھ ساتھ دو سال تک گاڑی چلانے پر بھی پابندی لگ سکتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ٹریفک پولیس نے جو سفارشات حکومت کو بھیج رکھی ہیں ان میں یہ ایک یہ بھی ہے کہ ایسے افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے اور گاڑیوں کو ضبط کرنے کے قوانین بھی منظور کیے جائیں تاکہ لوگ لائسنس بنوانے کو ایک عمل سسنجیدہ عمل سمجھیں۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے بھیجی گئی سفارشات وزارت قانون کو موصول ہو چکی میں ہیں جس پر قانونی سازی کے لیے کام ہو رہا ہے۔