’ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن غدار اور سازشی نہیں ہو سکتے‘
’ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن غدار اور سازشی نہیں ہو سکتے‘
جمعرات 27 اکتوبر 2022 9:56
پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا ہے کہ ’سچ کی لمبی خاموشی بہتر نہیں ہوتی لیکن جب جھوٹ کی بنیاد پر نشانہ بنایا جائے تو خاموش نہیں رہا جا سکتا۔‘
جمعرات کو پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ’میرا منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ میری ایجنسی کو پس منظر میں رہنا پڑتا ہے۔ میں اپنے محکمے کے لیے آیا ہوں جس کے افسر اور ایجنٹس پوری دنیا میں اس ملک کی پہلی دفاعی لائن بن کر کام کرتے ہیں۔‘
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے ابتدائی کلمات کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی کا تعارف کروایا اور میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے موجودہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو پریس کانفرنس میں شرکت کا کہا اور اب وہ براہ راست مخاطب ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے ارشد شریف کی ہلاکت کے حوالے سے کہا کہ ’معلومات اور تحقیق کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ اُن کی زندگی پاکستان میں محفوظ تھی۔‘
’کینیا کی پولیس نے کہا کہ شناخت کی غلطی کے باعث حادثہ پیش آیا ہے لیکن حکومت اور ہم اس بات سے مطمئن نہیں ہیں اس لیے تحقیقات کے لیے درخواست کی۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ ارشد شریف کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے وزارت داخلہ کی جانب سے تشکیل کردہ ٹیم میں سے ’دانستہ طور پر آئی ایس آئی کے افسروں کو نکالا ہے تاکہ غیرجانبدار تفتیش کو ممکن بنایا جا سکے۔‘
ڈی جی آئی ایس آئی نے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے متعلق کہا کہ ’لسبیلہ میں ہمارے کور کمانڈر اور ان کے ساتھ جوان شہید ہوئے اور ان کا مذاق اڑایا گیا۔‘
’میر جعفر کہنا، میر صادق کہنا، نیوٹرل کہنا اور جانور اس لیے کہا گیا کہ آرمی چیف اور ان کے ادارے نے غیرقانونی کام کرنے سے انکار کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آپ ہمارا محاسبہ کیجیے، صبح و شام کیجیے مگر پیمانہ یہ رکھیے کہ میں نے ملک و قوم کے لیے کیا کیا، یہ نہ رکھیے کہ میں نے کیا کیا۔‘
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھا کہ غیرجانبدار رہنا صرف آرمی چیف جنرل باجوہ اور کسی ایک شخص کا فیصلہ نہیں تھا، بلکہ پورے ادارے کا فیصلہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ مارچ میں آرمی چیف جنرل باجوہ کو عہدے کی مدت میں غیرمعمولی توسیع کی پیشکش ان کے سامنے کی گئی تھی۔
انہوں نے ادارے پر ہونے والی تنقید کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’اگر آپ کا دل مطمئن ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو اس کی تعریفوں کے پُل کیوں باندھتے رہے۔ آج بھی پس پردہ کیوں مل رہے ہیں۔ یہ نہ کریں کہ رات کو بند دروازوں کے پیچھے ملیں اور دن کو غدار کہیں۔ قول و فعل میں اتنا بڑا تضاد درست نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو خطرہ اندرونی عدم استحکام سے ہے۔
’نفرت اور تقسیم کی سیاست سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ معاشی مسائل کے باعث عدم استحکام سے خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’آئی ایس آئی کے ادارے نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ صرف وہ کام کریں گے جو قوم کے مفاد میں ہے اور آئین کے مطابق ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس میں شرکت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ’پریس کانفرنس سے صحافیوں کو حیران و پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایجنسی کے کچھ پوشیدہ معاملات ہوتے ہیں جن کو کہنے کی ذمہ داری میں خود اٹھانا چاہتا تھا اس لیے پریس کانفرنس میں آنا پڑا۔ جھوٹ کے جواب میں کسی نے تو سچ کی چُپ توڑنے کی ذمہ داری اٹھانا تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر میری ذات کے خلاف مہم چلائی گئی مگر میں نے کارروائی کرنے سے منع کر دیا تھا۔‘
صحافیوں پر لگنے والے الزامات سے متعلق ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ ’صحافیوں کو لفافہ کہنے کے نظریے کے خلاف ہوں۔ پاکستان کے صحافی بہت مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ اس نظریے کی مذمت کرتا ہوں۔‘
’ہمارا ایسا کوئی صحافی نہیں جس کو میں بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی لفافہ کہہ سکوں۔‘
’ہم سے اگر ماضی میں کوئی غلطیاں ہوئی ہیں تو گزشتہ 20 سالوں سے اپنے خون سے دھو رہے ہیں‘
اس موقعے پر ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ’اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں، اگر ہم سے ماضی میں کوئی غلطیاں ہوئی ہیں تو گزشتہ 20 سالوں سے اپنے خون سے دھو رہے ہیں۔‘
فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’ہم نے ماضی کی غلطیوں کی بہت بڑی قیمت چکائی۔ اب ہم اپنی اس بات پر کھڑے رہیں گے کہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف جس طرح کی مہم چلائی جا رہی ہے اس لیے غیرمعمولی قدم کے طور پر یہ سمجھا گیا کہ دونوں ایک ساتھ پریس کانفرنس کریں۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک میں سوشل میڈیا کے لیے کوئی قوانین و قواعد نہیں۔ حکومت اس کے لیے کوشش کر رہی ہے۔
’اس چیز کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق ریگولیٹ کرنا پڑے گا۔ ٹیکنالوجی سے خود کو لیس کرنا پڑے گا اور موجودہ قوانین پر عمل کرانا پڑے گا۔‘