Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وہ کون تھے جنہوں نے ارشد شریف کو کینیا بھجوایا، اس سوال کا جواب ملنا چاہیے‘

پاکستان کی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ ارشد شریف کی موت انتہائی اندوہناک واقعہ ہے اور اس پر سب کو دکھ ہے۔
جمعرات کو راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اس واقعے کا سچ سب کے سامنے لایا جائے گا۔
’ارشد شریف نے سائفر پر بھی متعدد پروگرام کیے، اس وقت کے وزیراعظم کے ساتھ متعدد انٹرویو اور ملاقاتیں بھی کیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف نے نومبر سے سخت پروگرام کیے۔ ’آج بھی کئی صحافی سخت سوالات اٹھا رہے ہیں مگر وہ ملک میں ہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پانچ اگست کو خیبر پختونخوا کی حکومت نے ارشد شریف کے حوالے سے تھریٹ الرٹ جاری کیا۔ یہ الرٹ وزیراعلیٰ کی خصوصی ہدایت پر جاری کیا گیا۔
یہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا تاکہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اس کے بعد سے متواتر سے یہ بیانیہ بنایا گیا کہ ارشد شریف کو بیرون ملک قتل کر دیا جائے گا۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے مطابق دس اگست کو ارشد شریف پشاور ایئر پورٹ سے دبئی کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کو خیبر پختونخوا حکومت نے مکمل پروٹوکول فراہم کیا۔
’اداروں نے اُن کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر حکومت چاہتی تو ایف آئی اے کے ذریعے روک سکتی تھی۔‘
فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’کسی نے سرکاری سطح پر نکلنے سے مجبور نہیں کیا۔ پھر وہ کون تھے جنہوں نے اُن کو کینیا بھجوایا۔ اس سوال کا جواب ملنا چاہیے۔‘

فوج کے ترجمان نے کہا کہ ارشد شریف نے سابق وزیراعظم کے متعدد انٹرویوز کیے۔ فوٹو: سکرین گریب

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ’ارشد شریف کی وفات کی خبر سب سے پہلے کس نے کس کو دی۔ کیا واقعی یہ شناخت کی غلطی تھی یا پھر ٹارگٹ کلنگ تھی۔ حکومت سے اس کی تحقیقات کے لیے کہا اور اس کے لیے بین الاقوامی ماہرین کی خدمات بھی لی جانی چاہئیں۔‘
’اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال کا نام بار بار آ رہا ہے، ان کو پاکستان واپس لا کر شاملِ تفتیش کیا جائے۔‘
فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’ہم نے ماضی کی غلطیوں کی بہت بڑی قیمت چکائی۔ اب ہم اپنی اس بات پر کھڑے رہیں گے کہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے معاملے پر انکوائری کمیشن کی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے کیا کہا؟

ڈی جی آئی ایس پی کے ساتھ پریس بریفنگ کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم نے کہا ہے کہ سچ کی لمبی خاموشی بہتر نہیں ہوتی۔
میرا منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ میری ایجنسی کو پس منظر میں رہنا پڑتا ہے۔ میں اپنے محکمے کے لیے آیا ہوں جس کے افسر اور ایجنٹس پوری دنیا میں اس ملک کی پہلی دفاعی لائن بن کر کام کرتے ہیں۔
جب جھوٹ کی بنیاد پر نشانہ بنایا جائے تو خاموش نہیں رہا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ لسبیلہ میں ہمارے کور کمانڈر اور ان کے ساتھ جوان شہید ہوئے اور ان کا مذاق اڑایا گیا۔

آئی ایس آئی کے سربراہ نے کہا کہ ارشد شریف کے اُن کے محکمے سے اچھے تعلقات تھے۔ فائل فوٹو

میر جعفر کہنا، میر صادق کہنا، نیوٹرل کہنا اور جانور کہنا اس لیے ہے کہ آرمی چیف اور ان کے ادارے نے غیرقانونی کام کرنے سے انکار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ غیرجانبدار رہنا صرف آرمی چیف اور کسی ایک شخص کا فیصلہ نہیں تھا، یہ پورے ادارے کا فیصلہ تھا۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے مزید کہا کہ ’جنرل باجوہ کو مارچ میں آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں غیرمعمولی توسیع کی پیشکش کی گئی۔ میرے سامنے کی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آج بھی پس پردہ کیوں مل رہے ہیں۔ یہ نہ کریں کہ رات کو بند دروازوں کے پیچھے ملیں اور دن کو غدار کہیں۔ قول و فعل میں اتنا بڑا تضاد درست نہیں۔‘

شیئر: