Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شادی شدہ خاتون سے گھر کا کام کرنے کا کہنا ظلم نہیں ہے، ممبئی ہائی کورٹ

عدالت نے کہا ہے کہ ’اگر کسی شادی شدہ خاتون سے گھر والوں کے کام کے لیے کیا جائے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نوکرانی کی طرح ہے۔‘ (فائل فوٹو: پکسابے)
انڈیا میں ممبئی ہائی کورٹ کے اورنگ آباد بینچ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ اگر کسی شادی شدہ عورت سے گھر والوں کے لیے گھریلو کام کرنے کو کہا جائے تو اسے گھریلو ملازمہ کے کام کے برابر نہیں سمجھا جا سکتا اور یہ ظلم بھی شمار نہیں ہوگا۔
انڈین نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق دو رکنی بینچ نے یہ ریمارکس ایک خاتون کی طرف سے اپنے سابق شوہر اور ان کے والدین کے خلاف گھریلو تشدد اور ظلم کے لیے دائر مقدمے کو ختم کرتے ہوئے دیے۔
جسٹس ویبھا کنکن واڑی اور جسٹس راجیش پاٹل پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بینچ نے 21 اکتوبر کو درج ہونے والے مقدمے کو مسترد کر دیا۔
خاتون نے اپنی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ شادی کے بعد ایک ماہ تک ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا لیکن اس کے بعد وہ (شوہر اور اس کے والدین) اس کے ساتھ ’نوکرانی‘ جیسا سلوک کرنے لگے۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایک مہینے بعد شوہر اور ان کے والدین نے گاڑی خیردنے کے لیے ان سے چار لاکھ انڈین روپے کا مطالبہ کیا۔
اپنی شکایت میں خاتون کا کہنا تھا کہ اس مطالبے کی وجہ سے ان کے شوہر نے انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر ہراساں کیا۔

خاتون نے اپنی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ شادی کے ایک ماہ بعد شوہر اور اس کے والدین ان کے ساتھ ’نوکرانی‘ جیسا سلوک کرنے لگے۔ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ خاتون نے صرف یہ کہا تھا کہ انہیں ہراساں کیا گیا تھا لیکن اپنی شکایت میں انہوں نے اس طرح کے کسی عمل کی وضاحت نہیں کی تھی۔
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر کسی شادی شدہ خاتون سے طور پر گھر والوں کے کام کے لیے کیا جائے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نوکرانی کی طرح ہے۔ اگر وہ اپنے گھر کے کام کرنے کی خواہش نہیں رکھتی تھی تو اسے شادی سے پہلے بتانا چاہیے تھا تاکہ دولہا خود شادی کے بارے میں دوبارہ سوچ سکے یا اگر شادی کے بعد ہے تو اس مسئلے کو پہلے ہی حل کر لینا چاہیے تھا۔‘

شیئر: