دونوں کے قومی ٹیم سے کنارہ کشن ہونے پر فیصلوں پر تبصروں کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری، سابق بیٹسمین فیصل اقبال نے تو دونوں بڑ کھلاڑیوں کی جگہ لینے کا دعویٰ کر ڈالا
سید جمیل سراج ۔ کراچی
ویسٹ انڈیز کے ساتھ ٹیسٹ کرکٹ میں یونس خان کے 10ہزار رنز مکمل کرنے کی خبر پر پاکستان میں انتہائی جوش و جذبہ پایا جاتا ہے جبکہ مصباح کے 99رنز پر بھی مداحوں نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب یونس خان اور مصباح الحق کی قومی ٹیم سے کنارہ کش ہونے کے فیصلوںپر تبصروں کا نہ تھمنے والا سلسلہ تا حال جاری ہے، سابق کرکٹرز، پی سی بی سربراہوں اور سیکڑوں سنجیدہ شائقین کا یہی کہنا ہے ان دونوں سینیئر کھلاڑیوں کا فیصلہ بروقت اور دانشمندانہ ہے، ملکی کرکٹ کی طویل عرصہ خدمات انجام دینے کے بعد بالخصوص یونس خان نے بہت سنجیدہ فیصلہ کیا ۔اس پر کئی ماہرین نے انہیں مشورہ دیا کہ ان کی کرکٹ ابھی باقی ہے، قومی ٹیم کیلئے انہیں مزید کھیلنا چاہئے تھا وغیرہ، لیکن ان تبصروں میں ایک ٹیسٹ بیٹسمین جسے پی سی بی نے عرصہ دراز سے نظر انداز کرکرکھا ہے، بول پڑا، جی ہاں وہ ٹیسٹ مڈل آرڈر بیٹسمین فیصل اقبال ہے جس نے اپنے دونوں سینیئر کرکٹرز کی ریٹائرمنٹ پر برجستہ کہا ” اگر مجھے قومی ٹیم کی نمائندگی کا دوبارہ موقع دیا جائے تو ان دونوں بڑے کھلاڑیوں کی جگہ لے سکتا ہوں۔ ان کی کمی پورا کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہوں. فیصل اقبال کا یہ تازہ بیان ایک مقامی اخبار سے گفتگو میں سامنے آیا۔فیصل اقبال اگرچہ 26 ٹیسٹ اور 18ایک روزہ میچوں میں پاکستان ٹیم کی نمائندگی کا اعزاز رکھتے ہیں تاہم ان میچوں ان کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی، سوائے ایک آدھ مرتبہ کے وہ ٹیم کیلئے کوئی بہت زیادہ پر کشش اننگز نہیں کھیل سکے ہیں یہی وجہ ہے کہ 27 کے رن اوسط سے انہوں نے 1124رنز اسکور کئے جس میں 139کسی ٹیسٹ اننگز کا ان کا زیادہ سے زیادہ اسکور ہے۔ 8 نصف سنچریاں بھی اس ٹیسٹ رکارڈ میں شامل ہیں۔ 18ایک روزہ میچوں میں فیصل اقبال نے مجموعی طور پر 314 رنز بنائے 100 ناٹ آو¿ٹ ان کی بہترین اننگز رہی جبکہ وہ اس فارمیٹ میں محض 22.42کا رن اوسط حاصل کرسکے۔فیصل اقبال اپنا آخری ٹیسٹ جنوری 2010 میں آسٹریلیا کے خلاف سڈنی میں کھیلے تھے، یوں ان کے قومی ٹیسٹ ٹیم سے الگ ہوئے سات سال بیت گئے ، پاکستان کی طرف سے ان کا آخری ایک روزہ میچ ملتان دن ڈے تھا جب وہ 13دسمبر 2006 کو ویسٹ انڈیز کے خلاف ایکشن میں تھے ، اس طرح ون ڈے ٹیم سے جدا ہوئے انہیں11برس گزر گئے جس کا شکوہ اور ذکر وہ اکثر میڈیا پراپنی گفتگو میں کرتے بھی رہے ہیں
جہاں تک ٹیسٹ سیریز کی تیاری کا معاملہ ہے تو اس پر سابق چیف سلیکٹر صلاح الدین احمد المعروف صلو بھائی کا کہنا تھا کہ اظہر علی کے ساتھ شان مسعود کو کھلایا جا سکتا ہے، یہ جوڑی قومی ٹیم کیلئے بہتر ثابت ہوگی ،شان مسعود کی بیٹنگ تکنیک بہتر ہے اسے ویسٹ انڈیز کے ماحول میں اپنی اور ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھنے کا موقع ملے گاجبکہ تجربہ کار اظہر علی اس فارمیٹ کیلئے تو بہترین چوائس ہیں ہی،اس سیریز میں ان کی اپنی کارکردگی میں نمایاں فرق پیدا ہونے کے واضح امکانات موجود ہوں گے، ون ڈے ٹیم کی قیادت کے دباو¿ سے آزاد ہونے کے باعث انہیں اپنی بیٹنگ پر بھر پور توجہ دینے کا موقع ملے گا جس سے جہاں ان کی انفرادی کارکردگی اچھی ہوگی وہیں ٹیم کو بھی فائدہ ہوگا اس لئے ویسٹ انڈیز کے خلاف قومی ٹیم کو اننگز کے آغاز کا ناہم مسئلہ اس طرح بخوبی حل کیا جا سکتا ہے،ویسے کپتان اور کوچ جیسا بہتر سمجھیں ،انہیں حتمی الیون کے انتخاب کا اختیار حاصل ہے ،
سابق سربراہ پی سی بی خالد محمود نے مکی آرتھر کے ان بیان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں غیر ملکی کوچ موصوف کا یہ کہنا ہے کہ ”پاکستان ٹیم جدیدکرکٹ سے نا آشنا ہے اس خامی کو بتدریج دور کرنے کی حکمت عملی پر ٹھوس اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔امید ہے کھلاڑی جلد اس پر قابو پالیں گے“سابق چیئرمین پی سی بی نے مکی آرتھر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا اگر قومی کرکٹرز جدید کرکٹ سے ناآشنا ہیں تو وہ گزشتہ ایک سال سے کیا جھک مار رہے ہیں۔ ٹیم کے ہمراہ اتنا عرصہ کم نہیں ہوتا۔ آپ کو 18لاکھ رروپے ماہانہ تنخواہ کس کام کیلئے ادا کئے جا رہے ہیں، ان سے اس پر سوال کیا جانا ضروری ہے لیکن ہمارے یہاں ایسی کوئی روایت کبھی تھی نہ قائم ہوسکتی ہے۔ قومی کوچ کا کام صرف یہ نہیںہوتا کہ وہ گراو¿نڈ میں کھلاڑیوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ان کو ڈانٹے ڈپٹے، یا نیٹس میں انہیں محض کیچنگ پریکٹس تک محدود رکھے۔ کوچ کی حیثیت باپ جیسی ہوتی ہے۔ اسے ہر کھلاڑی کے ساتھ یکساں اور نرم رویہ روا رکھنا ہوتا ہے، ان کے دیگر مسائل کو حل کرانے میں پیش پیش رہنا چاہئے جو موجودہ کوچ میں دور دور تک نظر نہیں آتا،اس لئے کھلاڑیوں کے بارے میں اس قسم کا بیان داغ دینے سے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔ ایسے مسائل کو حل کرنے اور ان کی بیخ کنی کیلئے ہیڈ کوچ بورڈ، ٹیم انتظامیہ اور کپتان سے باہمی مشاورت کے ذریعے معاملات کو درست کرسکتا ہے۔ اسے ٹیم کے جملہ مسائل کو حل کرنے کی غرض سے تمام تھنک ٹینک کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے اس کے بغیر دنیا کا کو ئی کوچ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ جب دنیا کے کھلاڑیوں کو کوئی کوچ اس طرح سے ٹھیک نہیں کرسکتا تو پاکستان ٹیم کو مکی آرتھر جیسے کوچ کیلئے یہ کام گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔
******