انہوں نے بتایا چونکہ ان دونوں کے درمیان ظاہری مسافت زیادہ ہے، اس لیے یہ ٹیلی سکوپ کے دھانے میں بالکل آمنے سامنے (برابر) تو نظر نہیں آئیں گے لیکن دوربین سے انہیں اس حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہفتہ وار بنیادوں پر مریخ کے رنگوں کا مشاہدہ کرنا اہم ہے کہ اس میں اب اور اگلے دسمبر میں ہونے والے ملاپ کے درمیان کس طرح ڈرامائی تبدیلیاں آئیں گی۔ یہ ڈرامائی تبدیلیاں مریخ کی روشنی کے رنگ بدلنے کی صورت میں محسوس ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے کے لوگ اس سیارے کو جنگ کا دیوتا کہا کرتے تھے۔ ان کے بقول کبھی جنگ کا یہ دیوتا آرام کرتا ہے اور کبھی یہ پرتشدد ہو جاتا ہے۔
ابو زاہرہ نے مزید کہا کہ یہ سمجھنے کے لیے کہ مریخ کی روشنی آسمان میں اتنی زیادہ مختلف کیوں لگتی ہے، ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ مریخ کوئی بہت بڑا سیارہ نہیں ہے۔ اس سیارے کا قطر صرف چھ ہزار 790 کلومیٹر ہے اور اسی حجم کے 20 سے زیادہ سیارے اور بھی دریافت ہو چکے ہیں۔ اس کی روشنی زمین کے قریب یا دور ہونے پر منحصر ہے۔
دوسری جانب سیارہ مشتری ہر وقت روشن دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ بہت بڑا ہے۔ مشتری کا قطر 140 ہزار کلومیٹر ہے۔
مریخ زمین کے مدار سے باہر سورج کے گرد چکر لگاتا ہے اور زمین اور مریخ کے درمیان فاصلہ بدلتا رہتا ہے۔ بعض اوقات زمین اور مریخ نظام شمسی کے ایک ہی طرف ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ تقریباً مخالف سمتوں ہیں ہوتے ہیں (جیسا کہ 2021 میں کئی بار ایسا ہوتا رہا)۔ اس وقت مریخ مدھم دکھائی دیتا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مریخ کا اگلا ملاپ اس تاریخ کو ہو گا جب یہ سیارہ آسمان پر دو سال میں اپنے عروج پر نظر آئے گا اور یہ دسمبر 2022 میں ہوگا۔