پاکستان میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے موجودہ حکومت کی جانب سے نیب قوانین میں ترامیم کے تحت اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکلنے والے مقدمات کو ختم کرنے کے لیے وزارت قانون سے رائے مانگ لی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزارت قانون کا کہنا ہے کہ نیب یہ مقدمات اپنے طور پر ختم کر دے، تاہم نیب حکام نے وزارت قانون سے کہا کہ نیب قانون میں کسی قانون کو از خود ختم کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ اس لیے وزارت قانون اس تکنیکی اور قانونی مسئلے پر رائے دے جس کے بعد نیب مزید کارروائی کر سکے گا۔
نیب ذرائع کے مطابق احتساب عدالتوں کی جانب سے کم و بیش چار سو مقدمات نیب کو بھجوائے گئے ہیں جن کے بارے میں عدالتوں نے کہا ہے کہ نیب ان مقدمات کو ختم کر دے۔
مزید پڑھیں
-
نیب کی جانب سے بی آر ٹی منصوبے میں ’کرپشن‘ کی تحقیقات شروعNode ID: 707411
-
نیب نے میگا کرپشن کیسز کی فہرستیں مرتب کرنا شروع کر دیںNode ID: 710401
حکام کے مطابق نیب نے اپنے قانون کے تحت عدالتی احکامات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ نیب اپنے طور پر کسی مقدمے کو ڈسپوز آف نہیں کر سکتا بلکہ اگر مقدمہ ایک بار کسی عدالت میں چلا جائے تو عدالت ہی اس کے بارے میں حتمی فیصلہ کرے گی۔
اس تناظر میں نیب نے فیصلہ کیا کہ ان مقدمات کو وزارت قانون کو بھیجا جائے گا اور قانونی رائے لی جائے گی تاکہ کسی بھی قسم کا کوئی قانونی ابہام نہ رہ جائے۔
ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ جب یہ معاملہ وزارت قانون نے وزیر قانون سردار ایاز صادق کے سامنے رکھا تو انہوں نے اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ لینے سے گریز کیا۔ ذرائع کے مطابق وزیر قانون سمجھتے ہیں کہ نیب اس معاملے میں تنقید سے بچنے کے لیے وزارت قانون کا کندھا استعمال کرنا چاہتا ہے۔
وزارت قانون حکام کا کہنا ہے کہ تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد وزارت قانون نے س معاملے پر قانونی ماہرین سے مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں وزارت قانون جلد قانونی ماہرین کا اجلاس بلائے گی اور ان کی آراء کی روشنی میں قانونی رائے تجویز کر کے نیب کو بھیجی جائے گی۔ حکام کے مطابق غالب امکان یہی ہے کہ یہ معاملہ جوں کا توں نیب کو واپس بھیج دیا جائے گا۔
نیب ترامیم کے بعد جن اہم کیسز سے سیاسی شخصیات کو فائدہ ملے گا ان میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی پر بننے والے مقدمات ختم ہو جائیں گے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سمیت کئی دیگر کو ریلیف ملے گا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی، سابق ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈی والا، پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کو بھی ریلیف ملے گا۔
نیب کے دوسرے ترمیمی بل 2022 کے تحت نیب 500 ملین روپے (50 کروڑ روپے) سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا۔
