Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیب نے دائرہِ اختیار سے باہر مقدمات ختم کرنے کے لیے وزارت قانون سے مدد مانگ لی

نیب قانون میں ترمیم کر کے ریمانڈ 90 دن سے کم کر کے 14 دن تک کر دیا گیا (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے موجودہ حکومت کی جانب سے نیب قوانین میں ترامیم کے تحت اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکلنے والے مقدمات کو ختم کرنے کے لیے وزارت قانون سے رائے مانگ لی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزارت قانون کا کہنا ہے کہ نیب یہ مقدمات اپنے طور پر ختم کر دے، تاہم نیب حکام نے وزارت قانون سے کہا کہ نیب قانون میں کسی قانون کو از خود ختم کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ اس لیے وزارت قانون اس تکنیکی اور قانونی مسئلے پر رائے دے جس کے بعد نیب مزید کارروائی کر سکے گا۔
نیب ذرائع کے مطابق احتساب عدالتوں کی جانب سے کم و بیش چار سو مقدمات نیب کو بھجوائے گئے ہیں جن کے بارے میں عدالتوں نے کہا ہے کہ نیب ان مقدمات کو ختم کر دے۔
حکام کے مطابق نیب نے اپنے قانون کے تحت عدالتی احکامات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ نیب اپنے طور پر کسی مقدمے کو ڈسپوز آف نہیں کر سکتا بلکہ اگر مقدمہ ایک بار کسی عدالت میں چلا جائے تو عدالت ہی اس کے بارے میں حتمی فیصلہ کرے گی۔  
اس تناظر میں نیب نے فیصلہ کیا کہ ان مقدمات کو وزارت قانون کو بھیجا جائے گا اور قانونی رائے لی جائے گی تاکہ کسی بھی قسم کا کوئی قانونی ابہام نہ رہ جائے۔
ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ جب یہ معاملہ وزارت قانون نے وزیر قانون سردار ایاز صادق کے سامنے رکھا تو انہوں نے اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ لینے سے گریز کیا۔ ذرائع کے مطابق وزیر قانون سمجھتے ہیں کہ نیب اس معاملے میں تنقید سے بچنے کے لیے وزارت قانون کا کندھا استعمال کرنا چاہتا ہے۔
وزارت قانون حکام کا کہنا ہے کہ تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد وزارت قانون نے س معاملے پر قانونی ماہرین سے مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں وزارت قانون جلد قانونی ماہرین کا اجلاس بلائے گی اور ان کی آراء کی روشنی میں قانونی رائے تجویز کر کے نیب کو بھیجی جائے گی۔ حکام کے مطابق غالب امکان یہی ہے کہ یہ معاملہ جوں کا توں نیب کو واپس بھیج دیا جائے گا۔
نیب ترامیم کے بعد جن اہم کیسز سے سیاسی شخصیات کو فائدہ ملے گا ان میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی پر بننے والے مقدمات ختم ہو جائیں گے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سمیت کئی دیگر کو ریلیف ملے گا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی، سابق ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈی والا، پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کو بھی ریلیف ملے گا۔
 نیب کے دوسرے ترمیمی بل 2022 کے تحت نیب 500 ملین روپے (50 کروڑ روپے) سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا۔

کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا سکیم میں بے قاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی (فوٹو: اے پی پی)

احتساب عدالت کے ججوں کے تقرر سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے لیا گیا ہے۔ ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی۔ ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کر سکے۔ احتساب عدالتوں کے ججز کی تقرری کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہی رہے گا۔
پہلے نیب ترمیمی بل کے تحت وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے۔ بالواسطہ یا بلاواسطہ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔
کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا سکیم میں بے قاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی۔ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کرسکے گا جب تک بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی مالی فائدہ شامل نہ ہو۔ چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے۔ ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینیئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج دیا جا سکے گا۔
احتساب عدالتیں کرپشن کیسز کا فیصلہ ایک سال میں کرنے کی پابند ہوں گی۔ نئے قانون کے تحت نیب انکوائری کی مدت کا تعین بھی کر دیا گیا ہے جس کے مطابق نیب 6 ماہ کے اندر انکوئری کا آغاز کرنے کا پابند ہوگا۔ نیب گرفتار شدہ افراد کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کرنے کا پابند ہوگا۔
بل کے مطابق نیب گرفتاری سے پہلے ٹھوس ثبوت کی دستیابی یقینی بنائے گا۔ نیب قانون میں ترمیم کر کے ریمانڈ 90 دن سے کم کر کے 14 دن تک کر دیا گیا ہے۔ ملزم کے لیے اپیل کا حق 10 سے بڑھا کر 30 روز کر دیا گیا ہے۔ کسی کے خلاف کیس جھوٹا ثابت ہونے پر ذمہ دار شخص کو پانچ سال تک قید کی سزا ہوگی۔

شیئر: