مظاہروں کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی کمیٹی ’مسترد‘
مظاہروں کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی کمیٹی ’مسترد‘
پیر 28 نومبر 2022 14:52
مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ایران میں ملک گیر احتجاج ہو رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایران نے کہا ہے کہ وہ حکومت مخالف مظاہروں کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی نئی مقرر کردہ کمیٹی کو مسترد کرے گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا ہے کہ ’ایران اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی جانب سے مقرر کردہ سیاسی کمیٹی کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرے گا۔‘
جمعرات کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے ایران میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کرنے پر ووٹ دیا تھا۔
کمشنر برائے انسانی حقوق کونسل والکر ترک نے مطالبہ کیا تھا کہ ایران مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو ختم کرے۔
16 ستمبر کو پولیس حراست میں ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہرانا نے کہا ہے کہ دو مہینوں سے زیادہ ملک گیر احتجاج میں 450 مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں۔ اس میں 63 کم عمر شہری بھی شامل ہیں۔
ہرانا کے مطابق اس دوران سکیورٹی فورسز کے 60 اہلکار بھی ہلاک ہوئے جبکہ 18 ہزار 173 مظاہرین کو حراست میں لیا گیا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے خامنہ ای کی تصاویر بھی جلائے۔ مظاہرین حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مظاہروں میں خاص طور پر خواتین کے حقوق کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مہسا امینی کو نامناسب طریقے سے سکارف لینے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
مظاہرین سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے اقتدار سے علیحدگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
1979 میں اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں جاری مظاہرے حکومت کے لیے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔
ایران ملک میں بدامنی کا الزام بیرونی دشمنوں اور اس کے ایجنٹوں پر لگا رہا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے مزید کہا تھا کہ ایران کے پاس ثبوت ہیں کہ مغربی ممالک ان ملک گیر مظاہروں میں ملوث ہیں۔
ایران حکومت نے اب تک مظاہرین کی ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں اعدادوشمار نہیں دیے تاہم ڈپٹی وزیر خارجہ علی باقری قانی نے کہا ہے کہ تقریباً 50 پولیس اہلکار مظاہروں میں ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔
سکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں سے متعلق پہلی مرتبہ سرکاری اعدادوشمار سامنے آئے ہیں تاہم انہوں یہ نہیں بتایا کہ اس تعداد میں پاسداران انقلاب کے اہلکار شامل ہیں یا نہیں۔