’سر جی یقین کریں میں دو مہینے سے گھر نہیں گیا۔ ان دو ماہ میں ایک دن بھی نیند پوری نہیں ہوئی اور پیٹ بھر کر یا من پسند کھانا نہیں ملا۔ کبھی کبھار تو ایسا کھانا ملتا ہے کہ پھینک کر اپنی جیب سے کھانا پڑتا ہے۔ سگی خالہ فوت ہوگئیں تو ان کی وفات کے تیسرے دن منت ترلوں کے بعد آدھے دن کی چھٹی ملی۔‘
یہ کہنا تھا اسلام آباد پولیس سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار کا جس نے چند روز قبل اسلام آباد کے سری نگر ہائی وے پر مجھ سے لفٹ مانگی اور حال احوال پوچھنے پر وہ عمران خان اور اپنے افسران پر پھٹ پڑے۔
رات کے بارہ بج رہے تھے کہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ 26 نمبر چونگی سے سری نگر ہائی وے داخل ہوا تو کچھ پولیس اہلکاروں نے ہماری گاڑی کو روکا۔ ابتدائی خیال یہ تھا کہ وہ معمول کی چیکنگ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے درخواست کی کہ ان کے ایک ساتھی کو اسلام آباد میں کراچی کمپنی تک لفٹ دے دیں۔
مزید پڑھیں
-
عمران خان کا اسلام آباد نہ جانے مگر اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلانNode ID: 721101
-
’توقع ہے نئی فوجی قیادت اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرے گی‘Node ID: 722161
ہم دونوں ہی صحافی تھے اور حسب عادت ہم نے اس سے حال احوال پوچھا تو پولیس اہلکار نے بتایا کہ وہ اور ان کے ہزاروں ساتھی گزشتہ دو سے تین ماہ سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں۔
’عمران خان نے 25 مئی کو اسلام آباد آنے کا کہا تو اس سے کئی ہفتے پہلے ہماری مختلف چوکوں، چوراہوں اور داخلی راستوں پر ڈیوٹیاں لگ گئیں۔ دس دس گھنٹے کی شفٹوں میں شدید گرمی میں بھی آرام کی اجازت نہیں تھی۔‘
انہوں نے بتا کہ ’25 مئی کے بعد جب عمران خان نے چھ دن بعد آنے کا اعلان کیا تب بھی کئی دنوں تک ہماری ڈیوٹیاں برقرار رہیں۔ حالیہ لانگ مارچ کی ڈیوٹی پر صرف اسلام آباد پولیس ہی نہیں بلکہ سندھ پولیس کے اہلکار بھی شامل ہیں۔‘
پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ’ڈیوٹی اتنی سخت تھی کہ میری اپنی سگی خالہ فوت ہوگئیں تو چھٹی نہیں ملی۔ تین دن تک منتیں ترلے کیے تو تب جا کر آدھے دن کی چھٹی ملی اور میں تعزیت کے لیے جا سکا۔‘
اس سلسلے میں ہم نے اگلے دن اسلام آباد کے مختلف مقامات پر تعینات اسلام آباد پولیس، ایف سی اور سندھ پولیس کے اہلکاروں سے ملاقاتیں کیں اور لانگ مارچ ڈیوٹی کے حوالے سے استفسار کیا۔
ان اہلکاروں کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی اس لیے ہم یہاں ان کے نام نہیں لکھ رہے۔
سندھ پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ’جب لانگ مارچ ڈیوٹی کے لیے ہمیں بلایا گیا تو سندھ میں موسم گرم تھا۔ ہم اسلام آباد آ گئے۔ ہمیں ایک سرکاری عمارت کے ایک ہال میں ننگے فرش پر اپنے سازو سامان کے اوپر سونے پر مجبور ہیں۔ یقین کریں ہمیں بدبودار، باسی اور کیڑوں والا کھانا تک کھلایا گیا ہے۔ کچھ دن تو مسلسل دال اور روٹی دی جاتی رہی جس کے باعث ہمیں احتجاج کرنا پڑا۔‘
