پاکستان مسلم لیگ نواز نے واضح اعلان کیا ہے کہ ان کے قائد اور تین بار کے سابق وزیراعظم نواز شریف اگلے برس جنوری میں پاکستان میں ہوں گے۔
اس اعلان سے قبل بھی پارٹی کے متعدد رہنماؤں کی جانب سے یہ کہا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ نون اگلے انتخابات کی تیاریاں شروع ہونے سے پہلے نواز شریف کی وطن واپسی چاہتی ہے کیونکہ یہ ان کی انتخابی مہم کے لیے ناگزیر ہے۔
مزید پڑھیں
-
نواز شریف کی واپسی سے ن لیگ کا بیانیہ مقبول ہوگا؟Node ID: 710536
-
سابق وزیراعظم نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ جاری کر دیا گیاNode ID: 716611
مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنما سینیٹر افنان اللہ خان نے چند ہفتے پہلے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ نواز شریف کی پاکستان واپسی ان کی انتخابی مہم کا اہم جزو ہے اور نواز شریف کی جلسوں میں شرکت اور خطاب کو پارٹی انتخابات جیتنے کی حکمت عملی میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
لیکن نواز شریف کی وطن واپسی میں کچھ قانونی نکتے حائل ہیں اور مرکز میں ان کی جماعت کی حکومت ہونے کے باوجود انہیں عدالتوں سے کچھ ایسے احکامات کی ضرورت ہے جو انہیں پاکستان واپسی پر جیل جانے سے بچائیں اور گرفتاری سے محفوظ رکھیں۔
حفاظتی ضمانت کی شرائط
نومبر 2019 میں جب نواز شریف علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوئے تھے تو وہ اس وقت جیل میں تھے اور عدالت سے چار ہفتوں کی ضمانت لے کر گئے تھے۔ لیکن اب جب وہ چار سال سے زائد عرصے بعد واپس لوٹ رہے ہیں تو انہیں ایک مرتبہ پھرعدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور گرفتاری سے بچنے کے لیے عدالت کو معقول وجوہات دینا پڑیں گی۔
سینیئر ماہر قانون عارف چوہدری ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ رائج عدالتی طریق کار اور قوانین کے تحت نواز شریف جب بھی وطن واپس آئیں، انہیں خود کو عدالت کے حوالے کرنا چاہیے اور اس کے بعد عدالت ان کی کسی اپیل پر غور کرے گی۔
تاہم ان کے خیال میں مرکز میں نواز شریف کی جماعت کی حکومت کی وجہ سے انہیں فائدہ مل سکتا ہے اور حکومت کے ماتحت ادارے کچھ ایسی توجیحات پیش کر سکتے ہیں جن کی وجہ سے عدالت انہیں فوری ریلیف فراہم کر دے۔
وکیل اسامہ ملک کے مطابق نواز شریف کے خلاف اس وقت العزیزیہ سٹیل ملز، چوہدری شوگر ملز اور توشہ خانہ سمیت متعدد مقدمات ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف لندن روانگی سے پہلے العزیزیہ سٹیل ملز کیس میں سزا بھگت رہے تھے اور اس دوران ہی انہیں طبی بنیادوں پر عدالت سے خصوصی اجازت نامے کے تحت بیرون ملک بھیجا گیا تھا۔
’اب جب وہ واپس آ رہے ہیں تو ایک طریقہ تو یہ ہے کہ وہ جیل جائیں اور وہاں سے اپنا مقدمہ دوبارہ لڑیں، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حکومت کوئی ایسا حکم پاس کرے کہ نواز شریف کی سزا ختم ہو جائے اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ نواز شریف حفاظتی ضمانت حاصل کریں اور اس کے بعد ان مقدمات میں ریلیف حاصل کریں۔‘
اسامہ ملک اور عارف چوہدری دونوں اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان کے رائج قوانین اور عدالتی نظام کے تحت نواز شریف کو حفاظتی ضمانت کے حصول کے لیے خود عدالت میں پیش ہو کر خود کو اس کے حوالے کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد ہی انہیں کوئی ریلیف مل سکتا ہے۔

ان کے مطابق اس بات کا امکان موجود ہے کہ نواز شریف اپنی آمد سے پہلے ہی وکیل یا اپنے کسی نمائندے کے ذریعے عدالت سے حفاظتی ضمانت کے لیے استدعا کریں۔ لیکن اس صورت میں عام طور پر حفاظتی ضمانت نہیں ملتی۔ اگر نواز شریف کو خود کو عدالت میں پیش کیے بغیر ضمانت مل گئی تو یہ ایک مثال ہو گی۔
تاہم مختلف مقدمات میں نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے پاس کسی بھی ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرنے کا حق موجود ہے۔
نواز شریف کی واپسی اور گرفتاری سے بچنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ لاہور یا اسلام آباد ہائی کورٹ جا کر ضمانت حاصل کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے طے کی جانے والی حکمت عملی کے متعلق ایک سوال کے جواب میں امجد پرویز کا کہنا تھا کہ وہ حفاظتی ضمانت حاصل کریں گے تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
نواز شریف کہاں لینڈ کریں گے؟
اسامہ ملک ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ یہ پہلو بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ نواز شریف پاکستان واپسی پر لینڈ کہاں کریں گے۔
’اگر پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت قائم رہتی ہے تو نواز شریف کا لاہور میں لینڈ کرنا کافی مشکل ہے۔ اگر انہیں آمد سے پہلے حفاظتی ضمانت نہیں ملتی تو لاہور پہنچتے ہی انہیں گرفتار کر لیا جائے گا اور ضمانت ملنے کی صورت میں بھی لاہور میں ان کے لیے انتظامی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔‘
اسی طرح اگر وہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترتے ہیں تو یہ ضلع اٹک کی حدود میں آتا ہے جو کہ صوبہ پنجاب میں ہے۔ اگرچہ لاہور، اسلام آباد اور دیگر تمام ہوائی اڈوں کا کنٹرول سول ایوی ایشن اتھارٹی کے پاس ہے لیکن پھر بھی اگر پنجاب حکومت چاہے تو ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
