ن لیگ پنجاب میں قومی اسمبلی کی دونوں نشست پر ہاری ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
سولہ اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں اپنے گڑھ پنجاب کے مضبوط حلقوں سے شکست کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما صدمے کی حالت میں نظر آتے ہیں اور پارٹی کی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس حاصل کرنے کے لیے پارٹی قائد نواز شریف کی لندن سے واپسی کی آوازیں بڑھ رہی ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے کئی رہنماوں نے تصدیق کی کہ پارٹی کی سیاسی حکمت عملی میں اب نواز شریف کی واپسی اہم ترین کردار کی حامل ہے اور اس سے ہی پنجاب میں پارٹی اپنا مقام واپس حاصل کرنے کی امید لگائے ہوئے ہے۔
حکمران جماعت کو اس وقت سابق وزیراعظم عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا سامنا ہے۔
اپریل میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ہونے والے تمام ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج نہ صرف عمران خان کے حق میں آئے ہیں بلکہ ان کی پارٹی کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے عوام میں مقبول بیانیے کے خلاف مسلم لیگ ن سمیت ان کی حریف جماعتوں نے مختلف بیانیے بنائے، تاہم ان بیانیوں کو عوام میں اس حد تک پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔
’نواز شریف پارٹی اور اداروں کی ضرورت بن چکے ہیں‘
وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’نواز شریف کی اہمیت صرف ضنمی انتخابات کی ہار کے بعد ہی واضح نہیں ہوئی بلکہ وہ ہمیشہ سے پارٹی کی ضرورت ہیں اور ان کے بیانیے کی وجہ سے ہی پارٹی مضبوط رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا ’آج کے حالات میں نواز شریف مسلم لیگ کی ہی نہیں بلکہ ریاستی اداروں اور ملک کی بھی ضرورت بن چکے ہیں ۔ریاستی اداروں کی طرف سے جب اس کا اعتراف کیا جائے گا تب تک شاید بہت نقصان ہو چکا ہو۔‘
انہوں نے تاریخی حوالے دے کر کہا کہ ’نواز شریف کو لایا نہیں بلکہ نکالا جاتا ہے اور یہ سلسلہ 1993 سے جاری ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔‘
’اس کے بعد 1997 کے انتخابات سے قبل جب واضح ہو رہا تھا کہ نواز شریف کلین سویپ کر رہے ہیں تو اس وقت کی نگران کابینہ کی ایک خاتون وزیر پارٹی رہنماؤں کے پاس آئیں اور پیغام دیا کہ انتخابات تب ہی جلد ہوں گے جب نواز شریف کو مائنس کر دیا جائے۔‘
جاوید لطیف کے مطابق ’2013 کے انتخابات کے وقت بھی طاقتور حلقوں کی طرف سے پارٹی کو کہا جا رہا تھا کہ نواز شریف کی جگہ کسی اور کو وزیراعظم کا امیدوار بنا دیں۔ تاہم جب الیکشن کروانا پڑ ہی گیا تو نواز شریف کے خلاف 2014 کا دھرنا کروایا گیا جس میں پیغام دیا گیا کہ بندہ بدلو اور پھر بالآخر 2017 میں بندہ بدل دیا گیا۔‘
کیا نواز شریف مصلحت کا شکار ہو رہے ہیں؟
عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے حوالے سے اردو نیوز کے سوال پر جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ یہ مقبولیت عمران خان کی نہیں ہے۔
’نواز شریف نے بیس پچیس سال لگا کر لوگوں کی ذہن سازی کی تھی کہ آئین پر عمل درآمد ہی لوگوں کی محرومیاں دور کرنے کا راستہ ہے، وہ اپنے بیانیے سے ہٹے نہیں۔‘
ان کے مطابق ’نواز شریف کی خاموشی سے انہیں نقصان ہو رہا ہے اور لوگ دکھی ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ قائد مسلم لیگ ن مصلحت کا شکار ہو رہے ہیں۔‘
جاوید لطیف کہتے ہیں کہ نواز شریف خاموش رہ کر قربانی دے رہے ہیں جبکہ پارٹی کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
’نواز شریف اس لیے مقبول تھے کہ وہ کہتے تھے کہ لوگوں کی تکالیف اور احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے اور اس کا مداوا آئین اور قانون پر عمل درآمد میں ہے کیونکہ جب ادارے قانون اور آئین سے ماورا اقدامات کرتے ہیں تو لوگوں میں محرومی کا احساس بڑھتا ہے۔‘
لندن میں حال ہی میں نواز شریف کی صحافیوں کے ساتھ گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ ’ابھی انہوں نے اپنی کتاب کا ایک صفحہ پڑھا ہے اگر چار پانچ صفحے پڑھ لیے تو لوگوں کے لیے برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘
جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ ’نومبر کے بعد نواز شریف کی واپسی کا امکان ہے، ان کے مطابق کھیل ابھی شروع ہوا ہے۔‘
نواز شریف ہمارا ترپ کا پتہ ہیں: سینیٹر افنان اللہ
مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر افنان اللہ خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ پارٹی حلقوں میں نواز شریف کی واپسی کی باتیں اب بہت زیادہ ہو رہی ہیں۔
’ضمنی انتخابات کے بعد پارٹی کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ نواز شریف بلاشبہ ہمارا ترپ کا پتہ ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ واپس آئیں اور پارٹی کی قیادت سنبھالیں۔‘
سلمان غنی کے خیال میں ن لیگ نے ضمنی انتخابات کو سنجیدہ نہیں لیا جبکہ عمران خان مسلسل جلسوں اور عوامی رابطوں کے ذریعے لوگوں سے جُڑے رہے جس کا انہیں فائدہ بھی ہوا۔
’مقبولیت اور سیاسی ساکھ ایک دفعہ اُکھڑ جائے تو اسے واپس لانا مشکل ہوتا ہے۔ نواز شریف نے بڑی مشکل سے مقبولیت اور ساکھ بنائی تھی۔ ’نواز شریف بیٹی سمیت جیل بھی گئے اور جدو جہد بھی کی جس کی وجہ سے جیل میں بیٹھے نواز شریف کو بھی عوام نے ووٹ دیا تھا اور پنجاب میں ن لیگ جیت گئی تھی۔‘
’مہنگائی نہ کم ہوئی تو نواز شریف کی واپسی سے بھی فائدہ نہیں ہوگا‘
مسلم لیگ ن کی سیاست پر کئی عشروں سے نظر رکھنے والے لاہور کے سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف کی واپسی سے پارٹی کو فائدہ ہوگا تاہم اگر مہنگائی کو کم نہ کیا جا سکا تو شاید ان کی واپسی بھی پارٹی کی گرتی مقبولیت کو نہ سنبھال سکے۔‘
انہوں نے کہا ’اسحاق ڈار ایک باقاعدہ پروگرام لے کر آئے تھے کہ عوام کے لیے ریلیف کا بندوبست کریں گے، ڈالر نیچے لائیں گے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کریں گے۔تاہم ابتدائی طور پر ایسا کرنے کے بعد یہ سلسلہ نہ چل سکا اور اب ڈالر پھر بے قابو ہو رہا ہے اور عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی کے باوجود پیٹرول کی قیمت دوسری مرتبہ بھی کم نہیں کی گئی۔‘
سلمان غنی کے مطابق نواز شریف کا جلد وطن واپس آنا اسحاق ڈار کی کامیابی سے مشروط تھا، تاہم اب جو کچھ ہو رہا ہے اور جو پنجاب میں نتائج سامنے آئے ہیں اس سے نواز شریف کی جلد واپسی کے امکانات بہت کم ہو گئے ہیں اور مریم نواز کی لندن واپسی میں بھی تاخیر کا امکان ہے۔
سلمان غنی کے خیال میں ن لیگ نے ضمنی انتخابات کو سنجیدہ نہیں لیا جبکہ عمران خان مسلسل جلسوں اور عوامی رابطوں کے ذریعے لوگوں سے جُڑے رہے جس کا انہیں فائدہ بھی ہوا۔
’مقبولیت اور سیاسی ساکھ ایک دفعہ اُکھڑ جائے تو اسے واپس لانا مشکل ہوتا ہے۔ نواز شریف نے بڑی مشکل سے مقبولیت اور ساکھ بنائی تھی۔ ’نواز شریف بیٹی سمیت جیل بھی گئے اور جدو جہد بھی کی جس کی وجہ سے جیل میں بیٹھے نواز شریف کو بھی عوام نے ووٹ دیا تھا اور پنجاب میں ن لیگ جیت گئی تھی۔‘
سلمان غنی کہتے ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد مسلم لیگ ن کی ساکھ بھی متاثر ہوئی اور مقبولیت بھی کمی ہوئی۔
’مہنگائی کو جہاں عمران خان نے چھوڑا تھا اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے۔ اصل دشمن مہنگائی ہے۔ اگر مہنگائی ختم نہ ہوئی تو نواز شریف آبھی گئے تو ان کی مقبولیت کی واپسی مشکل ہوگی۔‘