ناگپور کے سنگترے، بدایوں کے پیڑے، کمالیہ کا کھدر، چکوال کی ریوڑیاں جانی مانی سوغات ہیں (فوٹو: پکسا بے)
تم اپنے دیس کی سوغات ہو ہمارے لیے
کہ حسن تحفۂ آب و ہوا بھی ہوتا ہے
نجانے لفظ ’سوغات‘ میں ایسا کیا رمز ہے کہ یہ جس شے کے ساتھ آتا ہے اُسے خاص بنا دیتا ہے۔ اس شعر ہی کو دیکھ لیں کہ شاعر نے حُسنِ خُوباں کو تحفۂ آب و ہوا سے تشبیہ دے کر محبوب کو مجسم ’سوغات‘ بنا دیا ہے۔ رہا یہ سوال کہ حُسن فطرت مشاطگی کا یہ فرض کس طور انجام دیتی ہے تو اس کا جواب شمیم کرہانی کے شعر میں ملاحظہ کریں:
خیر ذکر تھا سوغات کا، جو کبھی موسموں سے نسبت رکھتی ہے اور کبھی مختلف مقامات سے تعلق جتاتی ہے۔ مثلاً مونگ پھلی، اخروٹ، چلغوزے اور گاجر حلوہ اگر موسم سرما کی سوغات ہیں، تو آم موسم گرما کا تحفہ ہے۔
رہی شہروں، قصبوں اور قریوں کے تعلق سے سوغات کی بات، تو فیروزآباد کی چُوڑیاں، ناگپور کے سنگترے، بدایوں کے پیڑے، کمالیہ کا کھدر، چکوال کی ریوڑیاں جانی مانی سوغات ہیں کہ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔
’سوغات‘ کے ان خوش کُن حوالوں کے بعد اگر آپ سے کہا جائے کہ یہ لفظ اپنی اصل میں ’سوغات‘ نہیں بلکہ ’سوقات‘ ہے، تو یقیناً آپ بُرا مان جائیں گے۔ مگر سچ یہی ہے کہ ترکی زبان میں تحفہ اور ہدیہ ’سوقات‘ کہلاتا ہے۔
پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ اہل فارس ’ق‘ کا تلفظ ’غ‘ کرتے ہیں۔ سامنے کی مثال ترکی زبان کا ’آقا‘ ہے، جو فارسی میں ’آغا‘ کا تلفظ دیتا ہے۔ پھر ایک مثال ’قالین‘ ہے، جس کا تلفظ اہل ایران ’غالین‘ کرتے اور اس کی تصغیر (قالیچہ) کو ’غالیچہ‘ پکارتے ہیں۔ ترکی کا ’سوقات‘ بھی اس صوتی تبدیلی کی زد میں آکر ’سوغات‘ ہوگیا ہے۔
فارسی میں ’حُقَّہ‘ کو ’قلیان‘ کہتے ہیں، جب کہ فارسی ہی میں اس ’قلیان‘ کا دوسرا تلفظ ’غلیان‘ ہے، جو اپنی اصل کے مطابق ہے۔ ’غلیان‘ ایک صفاتی نام ہے، رہی یہ بات کہ وہ صفت کون سی ہے جس کی نسبت سے حُقَّہ ’غلیان‘ کہلاتا ہے؟
یہ جاننے سے پہلے سمجھ لیں کہ عربی میں’غِلیان‘ کا لفظ جس مادے (root words) سے تشکیل پایا ہے، اس کے بنیادی معنی حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ اس تجاوز ہی کی رعایت سے عربی میں ہنڈیا کا ابال، کَھولنا اور جوش کھانا ’غلیٌ و غِلیَانٌ‘ کہلاتا ہے۔
جس وقت حُقَّہ پینے والا دم کشید کرتا ہے تب حُقّے کے تلے میں موجود پانی سے ایسی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے وہ جوش مار رہا ہو، یوں جوش مارنے ہی کی نسبت سے اسے ’قلیان‘ کہا گیا ہے۔
یہاں آپ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ جب ’غلیان‘ اصلاً اہل فارس کی ایجاد ہے اور فارس ہی کی راہ سے یہ ایک طرف یورپ میں متعارف ہوا اور دوسری جانب ہندوستان پہنچا، تو اس کا عربی زبان سے بھلا کیا تعلق ہے؟
اس سادہ سے سوال کا سادہ ترین جواب یہ ہے کہ اہل عرب نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ ’غِلیان‘ ان کی ایجاد و اختراع ہے، البتہ اہل زبان نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ’غِلیان‘ کا لفظ اصلاً عربی سے متعلق ہے، اہل فارس نے جوش مارنے کی نسبت سے حُقّے کو یہ نام دیا ہے۔
عربی میں دھواں ’دُخْانُ‘ کہلاتا ہے، چونکہ تمباکو نوشی کی جملہ صورتوں کا نتیجہ دھوئیں کی صورت میں برآمد ہوتا ہے، لہٰذا اس تعلق سے عربی میں بھاپ اور دھوئیں کے علاوہ تمباکو اور تمباکو سی بنی اشیا مثلاً سگریٹ اور سگار کو بھی ’دُخْانُ‘ کہتے ہیں۔ جب کہ تمباکو نوشی ’التَّدْخِيْنُ‘ کہلاتی ہے۔
اب ایک بار پھر ’غلیان‘ پر آتے اور بات آگے بڑھاتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ’غلیان‘ جس مادے سے مشتق ہے اس کے بنیادی مفہوم میں حد سے تجازو کرنا شامل ہے، تو اس بات کو ذہن میں رکھیں اور لفظ ’غُلُوٌ‘ پر غور کریں جس کا مفہوم ’شدّتِ اصرار‘ لیے ہوئے ہے، دوسری طرف لفظ ’غَلْوٌ‘ ہے جو اس تیر کو کہا جاتا ہے حدود سے تجاوز کر جائے۔
اشیا صرف کے قیمتیں جب اپنی حد سے تجاوز کرتی ہیں تب وہ گرانی میں داخل ہوجاتی ہیں، عربی میں اس گرانی کو ’غَلَاء‘ کہا جاتا ہے۔ جب کہ بیش قیمت چیز کو ’أَغلَى‘ کہتے ہیں۔
چونکہ گرانی کا تذکرہ ہو رہا ہے تو اس رعایت سے خوش گو شاعر اجمل سراج کا خوب صورتشعر ملاحظہ کریں: