Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ارسطو آئینے کا موجد تھا؟ عبدالخالق بٹ کا کالم

قدیم روایات میں سکندر اعظم کو ’آئینہ‘ کا موجد مانا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انداز اپنا دیکھتے ہیں آئینے میں وہ
اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
اچھے شعر کی خاص بات سادگی و سلاست کے ساتھ فکر کا مکمل ابلاغ ہے، جب کہ اضافی خوبی وہ لفظی مصوری ہے جو ماحول کو مجسم کر دیتی ہے۔ نظام رامپوری کا شعرِ بالا حُسنِ بیان کی اس تعریف پر پورا اترتا ہے۔ اس خوبی کے علاوہ شعر میں ہمارے لیے لفظ ’انداز‘ اور ’آیئنہ‘ بھی دلچسپی کا سامان لیے ہوئے ہیں۔
لفظ ’انداز‘ ہو یا ’اندازہ‘ دونوں کو فارسی مصدر ’انداختن‘ سے نسبت ہے، جو ’پھینکنا‘ کے علاوہ دو درجن سے زائد معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ 
اردو میں ’انداز‘ محبوب کے ناز و ادا، جب کہ ’اندازہ‘ قیاس و تخمینہ کے معنی میں برتا جاتا ہے، پھر ان جداگانہ معنی کے برخلاف یہ دونوں الفاظ ’طور، طریقہ، طرز، ڈھنگ، مقدار اور معتدل‘ وغیرہ کے سے مشترکہ معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں، ’اندازہ‘ کی رعایت سے پروفیسر سحر انصاری کا خوب صورت شعر ملاحظہ کریں:
ہمیں اندازہ رہتا ہے ہمیشہ دوست دشمن کا
نشانی یاد رکھتے ہیں، نشانہ یاد رکھتے ہیں
فارسی میں ’اندازہ‘ کا لفظ پیمانه، تعداد، حد، شمار، معیار، مقدار، مقیاس، میزان اور وزن کے مفاہیم کے ساتھ علم ریاضی کی ایک شاخ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ان اصطلاحی معنی کے ساتھ جب ’اندازہ‘ عربی زبان میں پہنچا تو ’ہندسہ‘ پوگیا۔
اس حوالے سے علامہ سید سلیمان ندوی کا کہنا ہے کہ ’ہندسہ کے معنی اندازہ کرنا اوراس سے مراد عمارت کا ناپنا اور نقشہ بنانا یعنی فن تعمیر ہے جس کو آج انجینئرنگ کہتے ہیں۔‘
پھر اس ’ہندسہ‘ ہی سے لفظ ’مہندس‘ بھی ہے جو عربی میں انجینئر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب انجینئرنگ کے معنی کے ساتھ ’مہندس‘ کو احمد عادل کے شعر میں دیکھیں:
مہندس ہوں میں حرف و صوت کے تازہ جہانوں کا
سو اپنے شعر میں لہجے نئے ایجاد کرتا ہوں
آگے بڑھنے سے پہلے دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ اول یہ کہ ’اندازہ‘ یکسر بدل کر ’ہندسہ‘ کیوںکر ہوا؟

فارسی میں ’آئینہ‘ بصورت ’آئنہ، آیینہ اور آینہ‘ بھی لکھا جاتا ہے۔ (فوٹو: پیکسلز)

عرض ہے کہ ’الف‘ اکثر موقعوں پر ہائے ہوز (ہ) سے بدل جاتا ہے، مثلاً فارسی ہی میں ’استہ‘ بمعنی ہڈی اور گٹھلی کو ’ہستہ‘، جب کہ ’ہنگام‘ کو ’انگام‘ بھی کہا جاتا ہے، جب کہ ’ہست‘ کو ’است‘ کہنا تو سامنے کی بات ہے۔
ایسے ہی ’ز/ زے‘ جن حروف سے بدلتا ہے، ان میں ’س/سین‘ بھی شامل ہے، مثلاً انگریزی میں مسلم (Muslim) کا تلفظ ’مُزلم‘ یا اسرائیل/ Israel کا تلفظ ’ازرائیل‘ بھی کیا جاتا ہے۔
اب حروف کی اس باہم تبدیلی کو ذہن میں رکھیں اور ’ہندسہ‘ پر غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ’ہندسہ‘ دراصل ’اندازہ‘ ہی کی معرب صورت ہے۔
دوم یہ کہ قدیم زمانے میں اہل ہِند علم ریاضی میں خاصے ماہر تھے، اس حوالے سے پہلے بھی نشاندہی کر چکے ہیں کہ ’صفر‘ بھی اہل ہند ہی کی دریافت ہے۔ اس کے علاوہ متحدہ ہندوستان میں بھی ہندو حساب کتاب میں ماہر سمجھے جاتے تھے۔ بقولِ مشتاق یوسفی ’مسلمان لڑکے حساب میں فیل ہونے کو اپنے مسلمان ہونے کی آسمانی دلیل سمجھتے ہیں۔‘
خیراہل ہند کی ریاضی میں اس دلچسپی کے سبب لفظ ’ہندسہ‘ کو ’ہند‘ سے مشتق سمجھا گیا، جو ظاہر ہے کہ درست نہیں۔ اس وضاحت کے ساتھ یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ ’ہندسہ‘ کا تلفظ حرف اول کے زیر کے ساتھ ’ہِندسہ‘ نہیں، بلکہ حرف اول اور حرف ثالث کے زبر کے ساتھ ’ہَندَسہ‘ ہے۔
اب کچھ ذکر ’آئینہ‘ کا ہوجائے جس کے متعلق لکھنؤ کے عرفان صدیقی کا کہنا ہے:
ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں
کیا خبر کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے
فارسی میں آئینہ‘ بصورت ’آئنہ، آیینہ اور آینہ‘ بھی لکھا جاتا ہے۔ جب کہ اس کی قدیم پہلوی صورت ’آئیناک‘ ہے۔ اس کے علاوہ ’آئینہ‘ کا لفظ صوتی تبدیلی کے نتیجے میں ’آدینہ‘ اور ’آذینہ‘ بھی پکارا جاتا ہے۔
جہاں تک لفظی تحقیق کی بات ہے تو فرہنگ ہائے فارسی ’آئینہ‘ کی اصل ’آئین‘ کو بتاتی ہیں، فارسی کی مشہور فرہنگ ’برہان قاطع‘ کے مؤلف محمد حسین برہان لفظ ’آئین‘ کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’آئین کا لفظ پائین کے وزن پر ہے، جس کے معنی زیب و زینت و آرائش کے علاوہ رسم و عادات اور طرز کے ہیں۔‘

ایک روایت میں ’آئینہ‘ کا موجد ارسطو کو قرار دیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اس وضاحت کے بعد یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ جس طرح آئینے میں انسان اپنا آپ دیکھ کر بنتا سنورتا ہے، ایسے ہی ’آئین‘ بھی قوم کے لیے بمنزلہ آئینے ہی کام دیتا ہے، جس کی رہنمائی میں وہ اپنے اوصاف کا جائزہ لیتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔
اس سے پہلے کہ ’آئینہ‘ کی رعایت سے ’آدینہ‘ کی بات کریں۔ لفظ ’آئنہ‘ کی ایک اور وجہ تسمیہ پر بات ہوجائے۔ بعض لغت نویسوں کے نزدیک لفظ ’آئنہ‘ کی ابتدائی صورت ’آہنہ‘ تھی اور اس ’آہنہ‘ کو ’آہن‘ یعنی لوہے سے نسبت ہے۔
قدیم فارسی روایت کے مطابق آئنہ یا آئینہ بنانے کے لیے مختلف دھاتوں کو آزمایا گیا مگر گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا، یہاں تک آہن یعنی لوہے کو جب خوب صیقل کیا گیا تو وہ چمک اٹھا یہاں تک اس میں عکس صاف دِکھائی دینے لگا، یوں اس آہن کی نسبت سے اسے ’آہنہ‘ پکارا گیا جو گزرتے وقت کے ساتھ ’آہنہ‘ سے ’آئنہ‘ ہوگیا۔ 
پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ قدیم روایات میں سکندر اعظم کو ’آئینہ‘ کا موجد مانا گیا ہے، جب کہ ایک  دوسری روایت میں ’آئینہ‘ کا موجد ارسطو کو قرار دیا گیا ہے۔ اُس نے یہ آئینہ سکندر کے لیے بنایا تھا، سکندر نے اس آئینے کو شہر اسکندریہ کے ایک مینار پر نصب کروایا تھا۔
اوپر لکھ آئے ہیں کہ ’آئینہ‘ کی ایک دوسری صورت ’آدینہ‘ ہے۔ یوں تو یہ آئینے ہی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، تاہم فارسی میں ’جمعہ‘ کے دن کو بھی ’آدینہ‘ کہتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ اس دن جمعے کی تیاری کے لیے خصوصی تیاری کرتے ہیں۔

شیئر: