Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی

دشمن کی اڑائی ’ہوائی‘ اردو میں ’افواہ‘ کہلاتی ہے، ’افواہ‘ عربی الاصل لفظ ہے۔ فوٹو: فری پِک
مجھ میں اور ان میں سبب کیا جو لڑائی ہوگی 
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
دشمن کی اڑائی یہ ’ہوائی‘ اردو میں ’افواہ‘ کہلاتی ہے۔ ’افواہ‘ عربی الاصل لفظ ہے جو ’فَوَہٌ‘ کی جمع ہے جس کہ معنی میں ’منہ، زبان، دانت، دہن، دھانہ اور چہرہ‘ شامل ہے۔ 
اسے ’منہ‘ کے معنی میں لفظ ’فَاهُ‘ میں دیکھ سکتے ہیں کہ مسواک سے منہ صاف کرنا اگر ’فَلْفَلَ فَاهُ‘ ہے، تو منہ کھولنے کو ’أَفْغَر فَاهُ‘ کہا جاتا ہے۔ یہی لفظ چہرے کے مفہوم میں بھی داخل ہے، چہرہ اس طرح ڈھنپنا کہ وہ تھوڑا سا کُھلا رہے ’لَثَمَ فَاهُ‘ کہلاتا ہے۔ 
یہ لفظ ’دانت‘ کے معنی بھی دیتا ہے، لہٰذا دانت توڑنا ’دَمَقَ فاه‘ کہلاتا ہے۔ ایسے ہی کسی کو خوش کلامی کی دعا دینی ہو تو کہتے ہیں ’لَايَفْضُضِ اللهُ فَاهُ‘ یعنی اللہ اس کے دانت سلامت رکھے۔ 
حرف و لفظ درحقیقت حلق، تالو، زبان، دانتوں اور لبوں کے جزوی یا کلی اشتراک سے پیدا ہونے والی مخصوص آوازوں کا نام ہے۔
حسبِ منشا آوازوں کی تخلیق میں معاون یہ اجزا ’دہن‘ ہی سے متعلق ہیں، سو اس رعایت سے ’بات اور بات چیت‘ بھی ’فَاةٌ اور فَوَہٌ‘ کی تعریف میں داخل ہے۔ لہٰذا باہم گفتگو ’تَفَاوَهَ القَومُ‘ کہلاتی ہے، تو پیٹ کا ہلکا یعنی کوئی بات راز نہ رکھ سکنے والا ’رَجُلٌ فَاةٌ‘ کہلاتا ہے۔ 
اس سے قبل کہ آگے بڑھیں ’پیٹ کا ہلکا‘ کی رعایت سے معروف دانشور احمد جاوید کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:
دل تو وہ پیٹ کا ہلکا ہے کہ بس کچھ نہ کہو
اپنی حالت سے کب ایسوں کو خبر کرتے ہیں
قرآن میں جہاں قول کی نسبت ’افواہ‘ یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں جھوٹی خبر اور من گھڑت بات کی طرف اشارہ ہے۔ اور انہی قرآنی معنی کے ساتھ ’افواہ‘ کا لفظ فارسی و اردو میں بھی مستعمل ہے۔ دیکھیں شاعر ’نعمان شوق‘ کیا کہہ رہے ہیں
بس ترے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر
کیسے کیسے لوگ تھے بیمار اچھے ہو گئے
منہ کی نسبت سے ’افواہ‘ کے ایک مجازی معنی ’پھونک‘ کے بھی ہیں۔ اسی مفہوم کو بصورتِ شعر ان الفاظ میں دہرایا گیا ہے:

پرتگیزی جملے کے عربی معنی ’راس امید‘، جب کہ انگریزی ترجمہ ’Cape of Good Hope‘ ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
دنیا میں دسیوں مقامات ایسے ہیں جن کے ناموں کی تشکیل میں ان کے جغرافیے کو دخل ہے۔
مثلاً جنوبی افریقہ (South Africa) کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ براعظم افریقہ کے جنوب میں واقع ہے۔ 
جنوبی افریقہ کے انتہائی جنوب میں جزیرہ نما کیپ کا ایک حصہ ’راس امید‘ کہلاتا ہے۔ اس عربی ترکیب میں ’راس‘ وہی ہے جسے اگر اُلٹا پڑھیں تو (الف محذوف ہوجانے پر) یہ ’سر‘ بن جاتا ہے۔ اس ’سر‘ کو اہل پنجاب سین کے زیر کے ساتھ ’سِر‘ پکارتے ہیں، اور درست پکارتے ہیں کہ اس ’سِر‘ کا ’سِرا‘ سنسکرت سے جُڑا ہے۔ 
اس کے برخلاف اگر اردو میں سین کے زبر کے ساتھ ’سَر‘ ہے تو یہ بھی صحیح ہے کہ اردو میں ’سَر‘ فارسی سے آیا ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ فارسی کا ’سَر‘ انگریزی ’Sir‘ کی بھی اصل ہے۔ یعنی یہ استادوں کا استاد ہے۔
خیر ذکر تھا ’راس امید‘ کا تو واقعہ یہ ہے کہ ’راس امید‘ افریقہ کا وہ مقام ہے جہاں بحر ہند اور بحر اوقیانوس ملتے ہیں۔
یورپ میں نشات ثانیہ کے دوران جب نئی دنیا کھوجنے اور ہندوستان تک پہنچنے کا مقابلہ شروع ہوا تب سب سے پہلے پرتگیزی جہاز راں یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
چونکہ اس مقام سے آگے ہندوستان اور مشرقِ بعید تک پہنچنے کی امید پیدا ہوگئی تھی، لہٰذا اس ’امید‘ ہی پر بادشاہِ پرتگال نے اس مقام کو Cabo da Boa Esperança کا نام دیا۔ 
اس پرتگیزی جملے کے عربی معنی ’راس امید‘، جب کہ انگریزی ترجمہ ’Cape of Good Hope‘ ہے۔ سو سال بعد آج بھی یہ مقام مختلف زبانوں میں اسی ’امید‘ کی یادگار ہے۔ 
راس امید‘ کے ذکر کے بعد اب ’راس کماری‘ کی بات کرتے ہیں جو جنوبی ہند کا انتہائی جنوبی علاقہ ہے۔ دراصل اس نام کی نسبت ہندو علم الاصنام کے ایک کردار ’کنیا کماری‘ سے ہے جسے ایک دوسرے اہم کردار ’کرشنا‘ کی بہن مانا جاتا تھا۔
برطانوی راج میں انگریزی لہجے کے زیر اثر اس ’کماری‘ کو ’کیمرون/Cameron‘  اور ’کیپ کیمرون/ cape cameron‘ کہا جانے لگا۔ تاہم انگریزوں کی رخصتی کے بعد اس علاقہ کا قدیم نام  ’کنیا کماری‘ بحال کر دیا گیا۔   
اس کنیا کماری یا راس کماری کے شمال مشرق کی جانب اور سری لنکا سے قریب ایک مقام ’دھنش کوڈی‘ ہے۔ اس نام میں ’دھنش‘ کے معنی ’کمان‘ اور ’کوڈی‘ کا مطلب ’اختتام‘ ہے۔ یوں اس نام کے معنی ’کمان کا اختتام‘ ہے۔ 
اگر نقشے پر دیکھیں تو ہندوستان سے سری لنکا کی طرف سمندر میں جو زمینی راستہ بنا ہوا ہے وہ کمان کی شکل لیے ہوئے ہے اور مذکورہ مقام اس کے آخر پر واقع ہے۔ یہی جغرافیائی پوزیشن اس مقام کی وجہ تسمیہ بن گئی ہے۔

شیئر: