Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

24 کوآرڈنیٹرز: ’وزیراعلٰی بلوچستان کا ہر دوسرے شخص کو موقع‘

کوآرڈنیٹرز میں سے بعض کی اہم سیاسی شخصیات سے رشتہ داریاں بھی ہیں (فوٹو: بلوچستان حکومت)
وزیراعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے مزید چھ افراد کو اپنا کوآرڈنیٹر مقرر کر لیا ہے جس کے بعد ان کے کوآرڈنیٹرز کی مجموعی تعداد 24 تک پہنچ گئی ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بڑی تعداد میں کوآرڈنیٹرز کی تعیناتی پر تنقید کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ’وزیراعلیٰ ہر دوسرے شخص کو کوآرڈنیٹر تعینات کر کے صوبے کی خدمت کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔‘
بلوچستان کے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن (کابینہ سیکشن) کی جانب سے بدھ کو جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعلٰی بلوچستان نے محمد داؤد، نصیب اللہ، سید انعام اللہ، زلیخہ عزیز خان، زرک خان اور سید شاہنواز کو کوآرڈنیٹر تعینات کر دیا ہے۔
محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’کوآرڈنیٹرز کی مجموعی طور پر 24 تک پہنچ گئی ہے اور وزیراعلٰی سیکریٹریٹ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ مزید کوآرڈنیٹرز بھی تعینات کیے جائیں گے۔ ایک دو دنوں میں نئی فہرست بھیجی جائے گی۔‘
کوآرڈنیٹرز میں بیشتر کم اور غیر معروف چہرے ہیں۔ ان میں سے بعض کی اہم سیاسی شخصیات سے رشتہ داریاں بھی ہیں۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے چھوٹے بھائی اعجاز سنجرانی، نوابزادہ سراج رئیسانی کے بیٹے جمال رئیسانی اور اے این پی کے رکن بلوچستان اسمبلی ملک نعیم بازئی کے بیٹے ملک عادل بازئی کوآرڈنیٹرز میں شامل ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے نائب صدر عبدالرؤف رند، باپ پارٹی کے ٹکٹ سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والی کاروباری شخصیت ولی محمد نورزئی، قبائلی رہنما ولی خان غبزئی اور پی ٹی آئی کے سابق صوبائی ترجمان بابر یوسفزئی کو بھی حالیہ دنوں میں کوآرڈنیٹرز مقرر کیا گیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ٹوئٹر اور فیس بک پر کوآرڈنیٹرز کی تعیناتیوں پر لوگوں نے طنز و تنقید کی ہے۔ جمیل بلوچ نے تبصرہ کیا کہ ’سنا ہے بلوچستان کا خزانہ خالی ہے جبکہ کوآرڈنیٹرز کی تعداد 24 تک پہنچ گئی ہے۔‘
صحافی سید علی شاہ نے لکھا کہ ’ایک اور رات ایک اور کوآرڈنیٹر کی تعیناتی، کوآرڈنیٹرز کا ہجوم بن گیا ہے۔‘
نبیل احمد نے تبصرہ کیا کہ ’بلوچستان میں کورونا وائرس کے بعد کوآرڈنیٹر وائرس ان ایکشن۔‘
ارشاد حمید نے لکھا کہ ’وزیراعلیٰ بلوچستان ہر دوسرے شخص کو کوآرڈنیٹر کے طور پر صوبے کی خدمت کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔‘
چیف صاحب نامی صارف نے کوآرڈنیٹرز کے ناموں کی فہرست شیئر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’ایک چھوٹی سی سفارش آپ کو بنا سکتی ہے وزیراعلیٰ بلوچستان کا کوآرڈنیٹر۔ تو جلدی کریں اور اس آفر سے فائدہ اٹھائیں۔‘
ڈاکٹر ناصر خان نے کہا کہ ’بلوچستان میں کوآرڈنیٹرز کی آسامیاں خالی ہیں۔ بے روزگار افراد جلد سے جلد قدوس بزنجو سے رابطہ کریں۔‘
عبدالقدوس بزنجو کے حامیوں نے بھی بڑی تعداد میں کوآرڈنیٹرز کی تعیناتیوں پر تنقید کی ہے۔ 
انبیٹ ایبل  بزنجو  نے لکھا کہ ’غیر ضروری اعلان: مزید کوآرڈنیٹرز کے لیے اگلی قرعہ اندازی اس سال کے اختتام پر ہوگی۔ اپنی اپنی پرچیاں سنبھال کر رکھیں۔‘
وزیراعلیٰ بلوچستان کے  کوآرڈنیٹرز بابر یوسفزئی نے ٹیلیفون پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوآرڈنیٹرز کی تعیناتی پر تنقید بلا جواز ہے، انہیں کوئی تنخواہ، دفتر، گاڑی اور کوئی دوسری مراعات نہیں ملتیں۔ یہ سارے لوگ بلا معاوضہ وزیراعلیٰ کی معاونت کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے مسائل حل ہوں۔‘
انہوں نے تصدیق کہ وزیراعلیٰ نے اگست سے لے کر اب تک 24 افراد کو کوآرڈنیٹر مقرر کیا ہے جو قبائلی و سیاسی پس منظر رکھنے والے اور سیاسی لوگ ہیں اور ان کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے۔
بابر یوسفزئی کا کہنا تھا کہ بلوچستان اتنا بڑا صوبہ ہے وزیراعلیٰ اور وزرا ہر جگہ نہیں پہنچ سکتے اس لیے انہیں ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے نوجوانوں پر مشتمل اپنی ٹیم بنائی ہے جو اپنے اپنے علاقوں اور شعبوں میں وزیراعلیٰ کی مدد کرتے ہیں۔
کوآرڈنیٹرکا کہنا تھا کہ ’پہلے روز احتجاج ہوتا تھا اور کوئٹہ کی سڑکیں بند ہوتی تھیں، لیکن گزشتہ ایک ماہ سے کوآرڈنیٹرز کی بروقت کوششوں سے احتجاج کے دوران کوئٹہ کی کوئی سڑک بند نہیں ہوئی۔ کیونکہ ہم ان کا مسئلہ فوری طور پر وزیراعلیٰ تک پہنچا دیتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ اپریل 2020 میں بلوچستان ہائیکورٹ نے 2018 میں صوبائی اسمبلی سے منظور کیے گئے وزیراعلیٰ کے معاونینِ خصوصی تعیناتی کے قانون کو کالعدم قرار دیا تھا۔
وزیراعلیٰ جام کمال کی جانب سے چھ خصوصی معاونین کی تعیناتی غیرآئینی قرار پائی۔ ان معاونینِ خصوصی کو تنخواہیں اور دیگر مراعات حاصل تھیں۔
عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ آئین کی دفعہ 130 کی شق 11 کے تحت وزرائے اعلٰی کو صرف مشیر مقرر کرنے کا اختیار ہے۔
ایس اینڈ جی اے ڈی افسر نے بتایا کہ ’کوآرڈنیٹرز کی تعیناتی کے لیے کوئی قانون موجود نہیں، لیکن یہ تعیناتیاں اعزازی بنیادوں پر ہوئی ہیں اور انہیں کوئی سرکاری مراعات نہیں دی جا رہی ہیں۔‘

شیئر: