Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی انسانیت کے خلاف جرم‘

جی سیون برطانیہ، کینیڈا، اٹلی، فرانس، جرمنی، جاپان اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
جی سیون ملکوں کے وزرائے خارجہ نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں سے سلوک کو ’انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیتے ہوئے طالبان سے خواتین کی اعلٰی تعلیم پر پابندی کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ترقی یافتہ ملکوں کے گروپ کے وزرائے خارجہ نے ورچول اجلاس کے بعد ایک بیان میں کہا کہ ’طالبان کی پالیسی خواتین کو عوامی زندگی سے دور رکھنے کا مظہر ہے اور ہمارے ملک طالبان سے کیسے روابط رکھیں، اسی کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا۔‘
افغانستان میں طالبان نے گزشتہ سال اقتدار میں واپس آنے کے بعد اپنے رویے میں نرمی دکھانے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم رواں ہفتے خواتین کی اعلٰی تعلیم پر پابندی کے اعلان کے ساتھ عالمی سطح پر کابل کے حکمرانوں کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
سخت گیر طالبان نے پہلے ہی رواں سال مارچ میں لڑکیوں کو سیکنڈری سکولوں میں جانے سے روک دیا تھا۔
جی سیون وزرا نے کہا کہ دونوں فیصلوں کو ’بغیر تاخیر کے‘ تبدیل کر دیا جانا چاہیے۔
وزرا کے بیان میں دی ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’روم میں منظور کیے گئے عالمی قانون کے تحت صنفی تشدد انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہو سکتا ہے جس میں افغانستان ایک ریاستی فریق ہے۔‘

جرمنی کی وزیر خارجہ نے خواتین کے یونیورسٹی جانے پر پابندی کو ’پتھر کے زمانے کی طرف‘ ایک اور قدم قرار دیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’جی سیون ممبران تمام افغانوں کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ اُن کے انسانی حقوق کو بین الاقوامی قوانین کے تحت پورا کیا جائے جو افغانستان کی عالمی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔‘
جی سیون ملکوں کے گروپ کی صدارت رکھنے والے جرمنی کی وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے خواتین کے یونیورسٹی جانے پر پابندی کو ’پتھر کے زمانے کی طرف‘ ایک اور قدم قرار دیا۔
انہوں نے برلن میں ایک پریس کے دوران کہا کہ ’افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو اب یونیورسٹیوں میں جانے کی اجازت نہیں، انہیں پارکوں میں جانے کی اجازت نہیں، انہیں دروازے سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں، انہیں سیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان وہ سب کچھ چھین رہے ہیں جو افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اور زندگی صرف زندہ رہنا نہیں ہوتا۔‘
جی سیون برطانیہ، کینیڈا، اٹلی، فرانس، جرمنی، جاپان اور امریکہ پر مشتمل ہے۔

خواتین کی اعلٰی تعلیم پر پابندی کے اعلان کے بعد عالمی سطح پر طالبان کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو: اے پی)

ادھر طالبان کے وزیر برائے اعلٰی تعلیم ندا محمد نے کہا ہے کہ خواتین کے یونیورسٹی جانے پر اس لیے پابندی عائد کی گئی کیونکہ طالبات لباس کے حوالے سے ہدایات پر عمل نہیں کر رہی تھیں۔
جمعرات کو سرکاری ٹی وی پر نشر کیے گئے انٹرویو میں وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ ’وہ طالبات جو گھروں سے یونیورسٹی آ رہی تھیں وہ حجاب کے حوالے سے ہدایات پر عمل نہیں کر رہی تھیں اور ایسے بن سنور کر آتیں جیسے شادی پر جا رہی ہوں۔‘

شیئر: