Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں کون سی الیکٹرک بائیکس دستیاب ہیں اور کتنی قیمت میں؟

جولٹا الیکٹرک پاکستانی کمپنی ہے جو الیکٹرک بائیک کے چار ماڈلز تیار کر رہی ہیں۔ (فوٹو: جولٹا بائیک)
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ملک میں پیٹرول سے چلنے والی موٹر سائیکلوں کو بتدریج الیکٹرک بائیک سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے جلد ہی تفصیلی پلان اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
بدھ کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے الیکٹرک بائیکس کے استعمال کو ملک بھر میں عام کرنے کے حوالے سے ایک تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ ملک میں پیٹرول سے چلنے والی موٹر سائیکلوں کو مرحلہ وار الیکٹرک بائیکس سے تبدیل کیا جائے گا۔
وزارت صنعت و پیداوار نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں 90 کمپنیاں موٹر سائیکلز اور آٹو رکشہ بنا رہی ہیں اور ملک میں سالانہ چھ ملین موٹر سائیکلز بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان میں 22 کمپنیوں کو الیکٹرک بائیک  بنانے کے لائنسنز جاری کیے جا چکے ہیں۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں الیکٹرک بائیکس کے فروغ سے ایندھن کی مد میں خاطرخواہ بچت ہوگی۔ الیکٹرک بائیکس کے استعمال سے نہ صرف ایندھن کی بچت ہوگی بلکہ یہ ماحول دوست الیکٹرک بائیکس کاربن کے اخراج میں کمی کا باعث بھی بنیں گی۔
وزیراعظم نے الیکٹرک بائیکس کے حوالے سے ایک تفصیلی پلان اقتصادی رابطہ کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔

پاکستان میں کون کون سی ای بائیکس دستیاب ہیں؟

پاکستان میں اگرچہ اس وقت 22 کمپنیاں لائسنس حاصل کر چکی ہیں لیکن مارکیٹ میں صرف پانچ کمپنیوں کے ای بائیکس دستیاب ہیں۔

جیگوار الیکٹرک بائیک 70 سی سی

جیگوار الیکٹرک بائیک اپنی مکمل چارج بیٹری کے ساتھ 71 کلومیٹر تک چلنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ اس کی رفتار بہت بہترین اور آواز بھی بہت کم ہے۔ اس کی بیٹری 5 گھنٹے میں مکمل چارج ہوتی ہے۔

پاکستان میں پیٹرول سے چلنے والے موٹر سائیکل عام ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جولٹا الیکٹرک بائیک

جولٹا الیکٹرک پاکستانی کمپنی ہے جو الیکٹرک بائیک کے چار ماڈلز اور ایک سکوٹی تیارکر رہی ہیں۔ ان کی رفتار 50 سے 80 کلومیٹر ہے۔ جے ای 70 ایل، جے ای 70 ڈی، جے ای 100 ایل، جے ای 125 ایل، جے ای سکوٹی خواتین کے لیے خصوصی طور پر تیار کی گئی ہے۔
125چلانے کے شوقین افراد کے لیے تقریباً انہی خصوصیات کی حامل جے 125 ایل کی رفتار 80 سے 100 کلومیٹر ہے۔ اس کی بیٹری اگرچہ ایڈوانس ہے لیکن اسے کسی بھی جگہ چارج کیا جا سکتا ہے۔

ای بائیک ٹی

یہ کمپنی بھی چار قسم کے الیکٹرک بائیک تیار کر رہی ہے جن میں ای بائیک ٹی 60، ای بائیک ٹی 70، ای بائیک ٹی 75 اور ای بائیک ٹی 85 شامل ہیں۔
یہ بائیکس تین سے پانچ گھنٹے میں چارج ہوتے ہیں اور اپنی طاقت کے حساب سے حد ان کی حد رفتار بھی 50 سے 100 کلومیٹر ہے۔ یہ بائیکس بغیر کِک کے سٹارٹ ہوتے ہیں جبکہ ان کے ٹائر بھی ٹیوب لیس ہیں۔ ان کا سائز بھی دیگر موٹرسائیکلوں کی نسبت چھوٹا ہے۔

نیون ایم تھری الیکٹرک بائیک

یہ ایک سپورٹس بائیک ہے اس میں 2000 واٹ کی موٹر ہے اس کی رفتار 90 کلومیٹر تک ہے۔ اس کی ٹرانسمیشن آٹو میٹک ہے۔ اس بائیک میں آٹو لاک ہیں جو بغیر چابی کے ہیں جبکہ اس کی بیٹری کی خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ 20 فیصد رہ جاتی ہے تو بائیک خود بخود بند ہو جاتی ہے۔ جسے تین سے چھ گھنٹے میں مکمل چارج کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں سکوٹی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ (فائل فوٹو)

سنرا الیکٹرک بائیک

یہ مکمل سٹیل باڈی الیکٹرک بائیک 60 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے چلایا جا سکتا ہے۔ اس میں اینٹی تھیفٹ سسٹم بھی موجود ہے جبکہ اس کی بیٹری 1500 واٹ کی ہے۔

پاکستان میں الیکٹرک بائیکس کی قیمتیں

ابتدائی طور پر پاکستان میں الیکٹرک بائیکس کی قیمتیں نسبتاً کم تھیں جو 80 ہزار سے شروع ہو کر ایک لاکھ تک تھیں لیکن ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی اب یہ قیمتیں ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہیں۔
جولٹا الیکٹرک کمپنی کے سی ای او عثمان شیخ ان کے بائیکس کی قیمت ابتدا میں 82500 تھی جو اب 112,000 روپے ہو چکی ہے۔ ڈرائی بیٹری کے ساتھ موٹر سائیکل سڑک پر 50 کلومیٹر کی ٹاپ سپیڈ کے ساتھ مکمل چارج شدہ بیٹری کے ساتھ 80 کلومیٹر تک چلتی ہے۔ اسی طرح جولٹا سکوٹی کی قیمت 125,000 روپے ہے۔
دیگر کمپنیوں کی قیمتیں جو 90 ہزار کے لگ بھگ تھیں اب ایک لاکھ 50 ہزار تک پہنچ چکی ہیں۔

پاکستان میں ای بائیکس ایک چیلنج کیوں؟

ماہرین کے مطابق پاکستان میں ای بائیکس کو متعارف کرانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ملک میں پیٹرول پر چلنے والی بائیکس کپمنیوں کی اجارہ داری ہے اور وہ حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے طاقت بھی رکھتی ہیں۔

پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے باعث شہری پریشان ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے دوسرا بڑا چیلنج ان بائیکس کی مقامی سطح پر تیاری ہے کیونکہ حکومت امپورٹڈ بائیکس کے حق میں نہیں ہے اور اس سے پاکستان کے درآمدی بل میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ای بائیکس پالیسی میں سپیئر پارٹس کی درآمد پر ٹیکس اور ڈیوٹیز میں چھوٹ بھی دی گئی ہے۔
تیسرا بڑا چیلنج یہ ہے پاکستان میں لوگ پاورفل بائیکس چلانے کے عادی ہیں اور انھیں ماحولیاتی آلودگی اور توانائی کی بچت جیسے عوامل کے بارے میں کچھ زیادہ آگاہی نہیں ہے۔ اس لیے انھیں قائل کرنے میں بھی وقت لگے گا۔
اس حوالے سے جولٹا الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر عثمان شیخ نے بتایا کہ ای بائیکس کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں لوگوں میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔
’الیکٹرک موٹرسائیکلوں کی پائیداری اور قابل عمل ہونے میں لوگوں کا اعتماد پیدا کرنا آسان کام نہیں۔ حکومت مفت رجسٹریشن کی سہولت کے ساتھ ملک میں ای بائیک کی فروخت کو بھی بڑھا سکتی ہے اور انہیں مختلف ٹیکسوں سے مستثنٰی قرار دے سکتی ہے۔ صارفین صرف ایک بار الیکٹرک گاڑیوں اور بائیک کی طرف بڑھیں گے جب انہیں مراعات کی پیشکش کی جائے گی۔‘

شیئر: