انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ پیٹرول مہنگا ہونے کے بعد انہوں نے گاڑی کا استعمال چھوڑ کر کام پر جانے کے لیے ایک 150 سی سی موٹر سائیکل خریدلی ہے۔
’اب میں دفتر آنے جانے کے لیے گاڑی کے بجائے موٹر سائیکل استعمال کر رہا ہوں۔ گاڑی میں یومیہ ایک ہزار کا خرچہ ہوتا تھا جبکہ موٹر سائیکل پر 3 سو روپے میں آنا جانا ہوجاتا ہے۔‘
موٹر سائیکل ڈیلرز صابر شیخ نے تصدیق کی ہے کہ ان کے پاس موٹر سائیکل خریدنے کے لیے آنے والوں میں سے بہت سے لوگ وہ ہیں جو پہلے کاروں میں سفر کرتے تھے۔
’حالیہ دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قمیتوں میں اضافے کی وجہ سے اب گاڑی میں سفر کرنے والے بہت سے افراد موٹر سائیکل خریدنے آرہے ہیں۔‘
موٹر سائیکل ڈیلرز کے جاری اعداد وشمار کے مطابق سالانہ 25 لاکھ موٹر سائیکلیں فروخت ہوتی ہے۔ جن میں تقریبا 21 لاکھ 70 سی سی اور 4 لاکھ 115، 125 ،150 اور اس سے زائد ہارس پاور کی موٹر سائیکلیں ہوتی ہیں۔ لیکن گذشتہ سال ان موٹرسائیکلوں کی فروخت 5 لاکھ تک بڑھ گئی۔
قیمت بڑھنے کے بعد کون سی موٹر سائیکل کتنے کی؟
مارکیٹ سروے کے مطابق سب سے زیادہ فروخت ہونے والی موٹر سائیکل اب بھی 70 سی سی ہی ہے۔ لیکن چینی سامان سے پاکستان میں اسمبل ہونے والی موٹر سائیکلیں بھی صارفین کی خاص توجہ کا مرکز بنی ہیں۔
لیکن موٹر سائیکلوں کی فروخت میں اضافے کے ساتھ ہی ان کی قیمت میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔
ڈیلرز کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ روپے کی قدر میں کمی اور درآمد پر عائد ٹیکسز کی وجہ سے کیا گیا ہے جس کے بعد تقریبا تمام موٹر سائیکل 25 سے 30 فیصد تک مہنگے ہو گئے ہیں۔
موٹر سائیکل ڈیلرز کے مطابق اس وقت چینی سامان سے تیار ہونے والی 70 سی سی موٹر سائیکل کی قیمت 72 ہزار روپے سے 76 ہزار روپے ہے۔ جبکہ 125 سی سی کی قیمت ایک لاکھ 10 ہزار سے ایک لاکھ 45 ہزار تک ہے۔
اسی طرح یاماہا وائی بی زیڈ 125 سی سی 2 لاکھ 55 ہزار روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔ جبکہ وائی بی 125 سی سی ڈی ایکس 2 لاکھ 73 ہزار 500 اور وائی بی آر 125 سی سی 2 لاکھ 95 ہزار میں فروخت کی جارہی ہے۔
ہنڈا کی 70 سی سی موٹر سائیکل کی قیمت 1 لاکھ 11 ہزار 500 روپے ہے۔ 125 سی سی کی قیمت 1 لاکھ 74 سے 2 لاکھ 63 ہزار روپے تک ہے۔ جبکہ سی بی 150 ایف کی قیمت 3 لاکھ 23 ہزار 900 روپے سے 3 لاکھ 27 ہزار 900 روپے ہے۔
سستی موٹر سائیکلوں کے پرزے جلد خراب کیوں ہو جاتے ہیں؟
صارفین کے مطابق مقامی سطح پر اسمبل ہونی والی موٹر سائیکل قیمت میں تو کم ہے لیکن وزن میں کم اور شاکس اچھے نہ ہونے کی وجہ سے اس کا سفر آرام دہ نہیں ہے اس لیے کئی افراد اسے ناپسند کر رہے ہیں۔
کراچی کے رہائشی مصطفٰی صدیقی جو کافی عرصے سے موٹر سائیکل استعمال کر رہے ہیں بتاتے ہیں کہ چین کے بنے پارٹس سے مقامی سطح پر بننے والی موٹر سائیکل سستی تو ہے لیکن استعمال کے کچھ ہی عرصے بعد اس کو مرمت کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ اور اگر سوزوکی یا ہنڈا موٹر سائیکل خریدیں تو اس کی قمیت اس سے تقریبا دو گنا ذیادہ ہے۔
’پہلے تھوڑا عرصہ موٹر سائیکل استعمال کرکے دوسری لے لیا کرتے تھے۔ اب تو پرانی استعمال شدہ موٹر سائیکل بہت کم پیسوں میں فروخت ہو رہی ہے اور نئی موٹر سائیکل بہت مہنگی ہے۔‘
صابر شیخ کے مطابق اس وقت خریدار زیادہ ترجیح ان موٹرسائیکلوں کو دے رہے ہیں جن کی فیول ایوریج اچھی ہے اور پارٹس سستے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پائیداری کے حساب سے ہنڈا، یاماہا اور سوزوکی کمپنیز کی موٹر سائیکلز کا پاکستان میں ایک نام رہا ہے لیکن اب چینی سامان سے مقامی سطح پر اسمبل ہونی والی موٹر سائیکل بھی اچھے معیار کی بن رہی ہیں۔
تاہم صارفین کی شکایتیں بھی بڑھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ موٹر سائیکلوں میں پلاسٹک کے استعمال میں اضافہ ہوگیا ہے اور ہماری سڑکوں کی خرابی کی وجہ سے یہ سامان جلدی ٹوٹ جاتا ہے۔
صارفین کا مطالبہ ہے کہ اگر موٹر سائیکل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے تو ان کے سپئیر پارٹس بھی معیاری بنائے جائیں۔