Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیا سال نئے اندیشے: ماریہ میمن کا کالم

پاکستانی عوام کی پریشانی کی ایک بڑی وجہ مہنگائی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
نیا سال ملک کے لیے نئے اندیشے لے کر آ رہا ہے۔ پاکستان کے لیے ایک جملہ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ملک تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ہمارے والدین نے بھی یہ جملہ سنا اور ان کے والدین نے بھی یہی بات ملک کی بنیاد رکھے جاتے وقت سنی ہو گی۔ آج کے دن اگر ملک کی صورتحال کا ذکر ہو تو یہی کہنے کا دل چاہتا ہے کہ واقعی آنے والا سال کئی نئے اندیشے لے کر آیا ہے۔ 
سب سے پہلا اندیشہ معاشی ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ ڈیفالٹ اور دیوالیہ ہونے کا تذکرہ نہ ہو۔ ڈالر اور فارن ایکسچینج کا نایاب ہونا اب ایک معمول ہے۔ ہر روز صنعتی اداروں کے بندش کی بات ہو رہی ہوتی ہے۔
امپورٹرز کا سامان رکنا اب عام خبر ہے۔ ایل سی کھلنے میں رکاوٹوں پر کاروباری طبقے کا واویلا بھی اب کوئی خاص ہلچل پیدا نہیں کرتا۔ آئی ایم ایف کی ناراضی ہے کہ دور ہونے کو نہیں آ رہی۔ ادھر ادھر سے امداد کی بھی بس خبریں ہی گردش کرتی رہتی ہیں مگر ابھی تک کوئی ٹھوس چیز سامنے نہیں آئی۔
معیشت کی غیریقینی صورتحال نے صرف کاروباری طبقے کا ہی اعتماد متزلزل نہیں کیا بلکہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی اب ملک سے باہر کی طرف آپشنز ڈھونڈ رہے ہیں۔ اندیشہ ہے کہ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال قابو سے ہی باہر نہ ہو جائے۔ 
معاشی صورتحال اگر دگرگوں ہے تو سیاسی صورتحال کی ہنگامہ خیزی بھی کم نہیں۔ اس میں اندیشہ یہ نہیں کہ آپس میں سیاسی اختلافات بڑھیں گے یا ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائی ہو گی۔ الیکشن میں دھاندلی یا اس کا الزام بھی نئی بات نہیں۔

حالیہ مہینوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی اضافہ رپورٹ ہوا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اصل اندیشہ تو یہ ہے کہ الیکشن وقت پر ہوتے بھی ہیں کہ نہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ ٹیکنوکریٹ حکومت کا شوشہ سامنے نہ آئے۔ ٹیکنوکریٹس کا تو شوشہ شاید کچھ طبقات کی خواہش ہی رہے مگر اگر کسی بہانے سے الیکشن میں تاخیر ہوئی تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھی ایک نئی سطح کا ناخوشگوار تجربہ ہو گا۔
اس طرح کے قدم کا ملک کے ووٹرز خصوصاً نوجوانوں پر اثر مایوس ترین ہو گا۔ ملک کی سیاست میں نئی تلخی پیدا ہو گی اور ایک ایسی روایت پڑے گی جس کی اثرات ایک عرصے تک ختم نہیں ہوں گے۔
معاشی اور سیاسی اندیشے تو ایک طرف رہے مگر سکیورٹی اور سلامتی کو لاحق خطرات ملک کے لیے ایک اور سنگین اندیشہ ہیں۔ نئے سال کے ساتھ ہی ملک میں دہشت گردی کی لہر دارالحکومت تک پہنچ چکی ہے۔ پارلیمنٹ کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ نئے سال کے آغاز پر عوامی مقامات پر پابندی لگائی گئی۔

2022 میں سیاسی عدم استحکام کے اثرات بھی سٹاک ایکسچینج پر پڑے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

غیرملکی سفارت کاروں نے دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر نقل و حرکت محدود کر دی ہے۔ خیبر پختونخوا میں کوئی دن نہیں جاتا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کی خبر نہ آئے۔ بلوچستان میں بھی حالات بدستور تشویش ناک ہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جس طرح کی تیاری اور ارادے کی توقع ہے وہ موجودہ حکومت بشمول صوبائی حکومتوں کی طرف سے تو  نظر نہیں آ رہا۔
معاشی، سیاسی اور سکیورٹی، تینوں اطراف سے نیا سال نئے اندیشے لے کر آیا ہے۔ مزید اندیشہ یہ ہے کہ ملک اور اس کی لیڈرشپ میں جس طرح کا اتفاق اور جس طرح کی قوت فیصلہ نظر آنی چاہیے وہ فی الحال نظر نہیں آ رہی۔ اس میں اصل چیلنج یہ ہے کہ پہل کس طرف سے ہو۔
اس وقت اگر ملک کی قیادت اپنی توانائیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف کرے گی تو ان اندیشوں کو کمی کے بجائے تقویت ہی ملے گی۔ اس وقت ملکی قیادت کی ذمہ داری ہے ملک کو درپیش چیلنجر کا ادراک کرے اور یقینی بنائے کہ یہ اندیشے کبھی حقیقت نہ بنیں۔

شیئر: