Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تماشا کب ختم ہو گا؟ ماریہ میمن کا کالم

پنجاب میں ق لیگ پی ٹی آئی کی اتحادی ہے۔ (فوٹو:پنجاب حکومت)
پنجاب میں میوزیکل چیئر کا کھیل جاری ہے۔ کرسی کے گرد چکر بھی لگ رہے ہیں اور کرسی پر کوئی مستقل بیٹھ بھی نہیں پا رہا۔ حکومت ہے بھی اور نہیں بھی۔
ایک دن ایک طرف سے حکومت کی برطرفی کا اعلان ہوتا ہے اور دوسرے دن دوسری طرف سے حکومت کی بحالی کا۔ حکومت کی اکثریتی پارٹی کیا اسمبلی میں ہی رہنا نہیں چاہتی۔
سب سے چھوٹی پارٹی وزارت اعلٰی پر براجمان ہے اور اعلان کر چکی ہے کہ وہ حکومت میں نہیں رہے گی مگر اس کے باوجود ابھی تک حکومت میں ہے۔ اپوزیشن جماعتیں ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں کہ ان کے مخالفین کی حکومت بچ جائے۔ عوام شش و پنج میں ہیں کہ کب یہ تماشا ختم ہو گا۔
پنجاب کے بحران میں اگر فریقین کے کردار پر غور کریں تو عمران خان کی پوزیشن واضح ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب حکومت کو بطور الٹی میٹم استعمال کر کے اگلے انتخابات کی راہ ہموار کریں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اگر انتخابات کے لیے مجبور نہ کرنا ہوتا تو وہ شاید پنجاب حکومت کو گھر بھیجنے میں اتنے سرگرم نہ ہوتے۔ اس کا اندازہ خیبر پختوانخوا کی حکومت کے بدستور کام کرنے سے ہوتا ہے۔ پنجاب میں تو کچھ قانونی اور کچھ سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے اسمبلی ابھی تک قائم ہے مگر خیبر پختوانخوا میں ایسی کوئی مجبوری نہیں۔
اسمبلی کے قائم رہنے کی یہی وجہ ہے اس کا تقابل البتہ پنجاب سے نہیں کیا جا سکتا۔ ایک تو وزیراعلٰی پی ٹی آئی کا نہیں اور دوسرا وہاں کی اسمبلی کی تحلیل وفاقی حکومت کے لیے کچھ ایسا خاص درد سر نہیں ہو گا۔ پنجاب البتہ اصل میدان ہے۔
اگر بات وزیراعلٰی کی ہو تو چوہدری پرویز الٰہی نے سیاسی  بساط پر سب سے کمزور مہروں کے ساتھ صرف کمال مہارت سے چالیں چل کر اپنے آپ کو پنجاب کی مسند پر برقرار رکھا ہے۔ اس سے زیادہ کامیابی کیا ہو گی کہ جب ن لیگ ان کو اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہے تو وہ پی ٹی آئی کی بدولت وزیراعلٰی بن جاتے ہیں اور اب جب پی ٹی آئی ان کو اقتدار میں نہیں رکھنا چاہتی تو ن لیگ ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ وہ کم از کم وزیر اعلٰی رہیں۔

ہائی کورٹ نے پرویز الٰہی کو اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر وزیراعلٰی کے منصب پر بحال کیا تھا۔ (فائل فوٹو)

کیا یہ چالیں ان کی اور ان کے صاحبزادے کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دوام بخشیں گی یا پھر وہ اس دور کے بعد دوبارہ گمنامی میں چلیں جائیں گے؟ اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا مگر ایک بات تو طے ہے کہ جب تک پنجاب میں کوئی ایک پارٹی واضح اکثریت نہیں حاصل کرتی اس وقت تک ان کا اور ان جیسے دوسرے گروہوں کا کردار رہے گا۔
اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو ن لیگ تخت لاہور کے بغیر بے چین اور مستقل اضطراب میں ہے اور اوپر سے ان کا المیہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ ایوان میں اپنا وزیراعلٰی لاتے ان کو پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ بچانے کے لیے تگ و دو کرنا پڑ رہی ہے۔
کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ان کے سابق وزیراعلٰی حمزہ شہباز منظر سے غائب ہیں۔ ان کے نائبین بظاہر سیاسی سرگرمیوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات میں مایوس کن کارکردگی کے بعد وہ انتخابات کے قریب بھی نہیں جا رہے۔ مریم نواز بیرون ملک ہیں اور وہاں سے نواز شریف کی آمد کی خبریں بھی کوئی خاص سرگرمی پیدا نہیں کر سکی ہیں۔ اب ٹیکنیکل گراؤنڈ پر حکومت تو قائم ہے مگر اس کا اصل فائدہ پرویز الٰہی کو ہی ہے۔

گزشتہ ماہ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پنجاب کا تماشا ملک کے عمومی سیاسی تماشے کا آئینہ دار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم اور خصوصاً ن لیگ اسی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دن گزاریں گے۔ معاشی میدان میں دیوالیہ ہونے کی خبریں ایک معمول ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا جب مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوتا۔ حکومت اپنا ایک سال پورا کرنے کے قریب ہے اور ان کے پاس ’ہم نے ملک کو تباہی سے بچایا‘ کے علاوہ کوئی بیانیہ نہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اب تک پورے نہ ہونے والے دعوؤں میں بھی کمی آ چکی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف کے پاس بھی شاید دورے کے لیے کوئی اور ملک نہیں۔ کیا اسی طرح وہ اسمبلیوں کی مدت پوری کروانا چاہتے ہیں؟
کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ الیکشن آگے کرنے کے خواب دیکھ رہے ہوں گے۔ مگر اس پر بھی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ایسے کسی اقدام کے جواب میں عمران خان کا رد عمل کیا ہو گا۔ کیا موجودہ تماشا اصل میں ایک ٹریلر ہے اور اصل تماشا ابھی باقی ہے؟ مگر حالات یہی بتاتے ہیں کہ کم از کم ایک برس یہ تماشا چلے گا۔ 

شیئر: