سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
کیا سسٹم ایک اور نااہلی کا بوجھ اٹھا سکتا ہے؟ نااہلی کا بندوبست کرنے والے اور اس پر مٹھائیاں بانٹنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ سسٹم کو بیلنس کرنے کے لیے ضروری ہے۔ تاریخ کا سبق البتہ اس کے برعکس ہے۔ سوال یہ ہے کہ بار بار کے تجربوں کے بعد بھی نااہلی کی تلوار پر انحصار کب ختم ہوگا؟
نااہلیوں کی تاریخ ملک کی سیاسی تاریخ کے ساتھ منسلک ہے۔ پروڈا اور ایبڈو کے نام پر لسٹیں بنا کر سیاست دانوں کو نا اہل کیا گیا۔ اس کا جو نتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔ اسی اور نوے کی دہائی میں مائنس ون اور مائنس ٹو کی اصطلاح متعارف کروائی گئی جو 2008 تک جاری رہی۔ اس کا نتیجہ بھی این آر او وغیرہ کی صورت میں نکلا اور وہی پارٹیاں اور وہی لیڈر میدان میں موجود ہیں۔
نواز شریف کی نااہلی جمہوری دور میں مائنس ون کی تازہ ترین مثال ہے جو کہ آئندہ آنے والے دنوں میں ختم ہونے جا رہی ہے۔ نا اہلی تو ختم ہو رہی ہے مگر نااہلی کی تلوار کا ہدف اب دوسری طرف ہو گیا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ سیاستدان کب سبق سیکھیں گے؟ خبریں یہ بھی ہیں کہ عمران خان کی نااہلی خاص نواز شریف کی اور ن لیگ کی فرمائش اور شرط ہے۔ ان کے خیال میں یہ سسٹم میں توازن کی ایک اہم صورت ہے۔ جو جو ان کے ساتھ ہوا وہ جب تک عمران خان کے ساتھ نہیں ہوگا اس وقت تک سسٹم اپنی جگہ پر واپس نہیں آ سکتا ہے۔ جب بھی نااہلی کے خلاف کوئی دلیل دی جائے تو واپس یہی جواب آتا کہ اگر نواز شریف کی نا اہلی ہو سکتی ہے تو عمران خان کی کیوں نہیں؟
حقائق اور کیسز کے میرٹ سے قطع نظر اگر صرف نااہلی کے سیاسی اثرات پر ہی بات کی جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی قائم نہیں رہ سکی تو کیا عمران خان کی نااہلی قائم رہ سکے گی؟ ہاں سسٹم کو جو دھچکے لگیں گے وہ اس کے علاوہ ہے۔ دوسری طرف سے یہ دلیل بھی سامنے آتی ہے کہ عمران خان سپریم کورٹ میں نواز شریف کی نااہلی کے درخواست گزار تھے اب اگر اپنے اوپر بات آئی ہے تو حوصلہ کریں۔
اس لائن پر اگر چلا جائے تو پاکستان میں جس جس پر کوئی غلط یا صحیح کارروائی ہوئی ہے وہ اقتدار میں صرف بدلے کے لیے آئے گا اور پھر مخالفین پر عرصہ حیات تنگ ہوگا۔ یہی مخالف جب واپس اقتدار میں آئیں گے تو وہ بھی اپنی باری میں ساری کسر پوری کریں گے۔ اور سیاست اسی انتقامی دائرے میں گھومتی رہے گی۔
نااہلی پر قانونی اور اصولی دلائل کے علاوہ عملی اور زمینی حقائق اس کے علاوہ ہیں۔ عمران خان ملک کے اب بڑے طبقے خصوصاً نوجوانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ نوجوان ملکی سیاست کے دھارے میں پہلی دفعہ شامل ہوئے ہیں۔ ان کی سیاسی سوچ عمران خان سے مشروط ہے۔ وہ ووٹ دیتے ہیں، جلسوں میں آتے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
ان کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں مگر اس رائے کی موجودگی ملکی سیاست کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ یہ نوجوان عمران خان کی الیکشن میں ہار کے ساتھ بھی سمجھوتہ کر سکتے ہیں، لیکن سیاسی میدان سے نااہلی کے نام پر عمران خان کو مائنس کرنا ان کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا اور ان کا سیاست اور سسٹم پر اعتماد اٹھ جائے گا۔ پراجیکٹ عمران خان جس طرح شروع ہوا اس کو اسی طرح ختم کرنے کی کوشش خام خیالی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
پی ٹی آئی دوسری سیاسی جماعتوں سے مختلف ہے کہ کسی فرسٹ فیملی کی عدم موجودگی میں یہ عمران خان کی ذات سے منسلک ہے۔ نواز شریف کی عدم موجودگی میں ان کے برادر اور دیگر اہل خانہ نے پارٹی اور حکومت میں بھر پور حصہ لیا۔ پیپلز پارٹی بھی ان اور آؤٹ کی عادی رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے پاس عمران خان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس نااہلی کے بعد اگر انتخابات کا دروازہ ان پر بند ہوا تو عمران خان پارٹی کو کس طرف لے کر جائیں یہ سوچنے والوں کے لیے لمحہ فکر ہے۔ سوچنے کا مقام نااہلی کا بندوبست کرنے والوں اور اس پر خوشیاں منانے والوں کے لیے بھی ہے کہ کیا سسٹم ایک اور نااہلی کا بوجھ اٹھ سکے گا؟