Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عشق اب پیرویِ عقلِ خدا داد کرے‘

علامہ اقبال سے متعلق ایک عام خیال یہ ہے کہ اُن کے کلام میں عقل کے مقابلے میں دل وعشق کو برتری حاصل ہے۔ (فائل فوٹو)
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے 
عشق بیچارہ نہ زاہد ہے نہ مُلا نہ حکیم
عقل و عشق’ یا ’عقل و دل‘ کا موازنہ اور مقابلہ علامہ اقبال کے محبوب موضوعات میں سے ہے۔ شعرِ بالا بھی اُن کی اسی فکر کا ترجمان ہے۔ سرِدست اس شعر میں توجہ کا مرکز ’عقل‘ کا لفظ ہے۔ جو مفرد اور مرکب صورت میں عربی ہی کی طرح فارسی اور اردو میں بھی عام برتا جاتا ہے۔
عقل‘ کے دلچسپ لفظی معنی جاننے سے قبل یہ سمجھ لیں کہ عام اصطلاح میں ’عقل‘ اس قوت کو کہتے ہیں جو قبولِ علم کی لیے تیار رہتی ہے۔ اسی نسبت سے حاصل ہونے والا علم خود بھی ’عقل‘ کہلاتا ہے۔ یوں ’خرد، سمجھ، فہم اور دانش‘ عقل کے مترادفات میں داخل ہیں۔
وہ علم جس کی بنیاد پر شعر کے وزن کو جانچا جاتا ہے ’عروض‘ کہلاتا ہے۔ اس علم عروض کی ایک اصطلاح کا نام بھی ’عقل‘ ہے۔ چوں کہ اس اصطلاح کی وضاحت ایک پیچیدہ و خشک بیان پر مشتمل ہے اس لیے اس کی وضاحت سے درگزر کرتے اور ’عقل و عشق‘ کی مناسبت سے علامہ اقبال کے ایک خوبصورت شعر سے حظ اٹھاتے ہیں:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
جزیرۂ عرب کی زندگی سادگی سے عبارت تھی۔ اس سادگی نے جُز رسی کو جنم دیا جب کہ اس جُز رسی سے پیدا ہونے والے الفاظ و معانی کے طلسم کدہ نے ایک عالم کو حیرت میں ڈال دیا۔

عام اصطلاح میں ’عقل‘ اس قوت کو کہتے ہیں جو قبولِ علم کی لیے تیار رہتی ہے۔ (فوٹو: فری پک)

لفظ ’عقل‘ ہی کو دیکھ لیں کہ اس کے لفظی معنی روکنا اور منع کرنا کے ہیں۔ اسی نسبت سے اونٹ کا پائے بند یعنی پاؤں باندھنے کی رسی کو ’عِقَالٌ‘ کہا گیا۔ یوں ’عقل‘ سے باندھنے کا مفہوم پیدا ہوا۔ لہٰذا عورت کے بال باندھنے کو ’عَقَلَتِ الْمَرْءَۃُ شَعرَھَا‘ کہا گیا۔
روکنے کے مفہوم میں ’عقل‘ کا استعمال لفظ ’مَعْقِلٌ‘ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ عربی زبان میں ’قلعہ‘ کے بہت سے ناموں میں سے ایک ’مَعْقِلٌ‘ بھی ہے۔ چوں کہ قلعہ دشمنوں کے حملوں کو روکنے کا کام دیتا ہے، لہٰذا اس نسبت سے ’مَعْقِلٌ‘ کہلاتا ہے۔
اس رُکنے اور روکنے کی رعایت سے ’خون بہا‘ کو بھی ’عَقْلٌ‘ کہا جاتا ہے، وہ اس لیے کہ خون بہا کی ادائی مقتول کے ورثہ کو کسی بھی انتقامی ردِعمل سے روک دیتی ہے۔
یہاں تک پہنچ کر آپ سوال کرسکتے ہیں کہ اوپر ’عِقَالٌ‘ ایسی رسی کو قرار دیا گیا ہے جس سے اونٹ کا پاؤں باندھا جائے جب کہ ’عِقَالٌ‘ ریشم یا اون کی خوبصورت موٹی ڈوری کو بھی کہتے ہیں، جو اہل عرب بطور سربند استعمال کرتے ہیں۔ 
بات یہ ہے کہ اونٹ سوار جب کسی جگہ اترتا تو اونٹ کے بیٹھنے پر اس کے دوہرے پاؤں کو گھٹنے کے پاس رسی سے باندھ دیتا۔ عام طور پر پاؤں کے گرد یہ رسی دو حلقوں کی صورت میں ہوتی تھی۔ سوار جب دوبارہ سفر کا ارادہ کرتا تب وہ رسی کے اس حلقے کو پاؤں سے نکال کر سر پر رکھ لیتا کہ سر پر موجود رومال ہوا کے زور سے اُڑ نہ جائے۔ تمدنی ترقی نے اونٹ کا استعمال محدود کر دیا تاہم ’عِقَالٌ‘ آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

’عِقَالٌ‘ ایسی رسی کو کہتے ہیں کہ جس سے اونٹ کا پاؤں باندھا جائے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یوں تو ’عقال‘ اونٹ کا پاؤں باندھنے کی رسی ہے تاہم مجازاً اس جُز سے کُل کا کام لیا جاتا ہے اور ’عقال‘ کہہ کر اونٹ مراد لی جاتی ہے، خاص طور پر اس کا اطلاق ’جوان اونٹی‘ پر ہوتا ہے۔ 
اس سے قبل کے ’عقل‘ بمعنی سوچ بوجھ پر بات کی جائے، روکنے اور باندھنے کی رعایت سے ایک اور بات ملاحظہ فرمائیں اور وہ یہ کہ ہم جسے حوالات اور جیل کے نام سے جاتے ہیں اس کے لیے عربی میں ایک لفظ ’مُعْتَقَل‘ بھی ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ حوالات یا جیل میں ملزم یا مجرم کو رکھا جاتا ہے جب کہ نظر بندی کیمپ یا عارضی قید خانہ ’مُعَسْكَرُ اعتِقالٍ‘ کہلاتا ہے۔
عقل‘ سے مشتق الفاظ مثلاً عاقل، عقیل، معقول اور تعقل وغیرہ میں سمجھداری، دانشوری اور دانائی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو بات ہمارے نزدیک ’ناقابل فہم‘ ہو وہ عربی میں ’لا يُعْقَل‘ کہلاتی ہے۔ ایسے ہی جو ہمارے یہاں بے وقوف اور کم عقل کہلاتا ہے اسے عربی میں  ’خفيف العقل‘ اور ’رَكيْكُ العَقْل‘ کہا جاتا ہے۔
یوں تو دانت بچپن ہی میں نکل آتے ہیں تاہم چار ڈاڑھیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو پختہ عمر میں نکلتی ہیں۔ چوں کہ یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب ایک عام انسان سمجھداری کو پہنچ چکا ہوتا ہے لہٰذا اس سمجھداری ہی کی نسبت اس ڈاڑھ کو ’عقل ڈاڑھ‘ کہا جاتا ہے۔ ان ڈاڑھوں کے متعلق ایسا ہی خیال اہل عرب کا بھی ہے یوں وہ عقل ڈاڑھ کو ’ضِرْسُ العَقْل‘ کہتے ہیں۔ 
علامہ اقبال سے متعلق ایک عام خیال یہ ہے کہ اُن کے کلام میں عقل کے مقابلے میں دل وعشق کو برتری حاصل ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ حسب موقع ’عقل‘ کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں بلکہ ’عشق‘ کو ’عقل‘ کی پیروی کا مشورہ بھی دیتے ہیں:
عشق اب پیرویِ عقلِ خدا داد کرے
آبُرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے

شیئر: