’زُلف سر ہونا‘ کے معنی وصل کی منزل تک پہنچ جانا ہے۔ فوٹو: انسپلیش
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک
بھلے وقتوں میں زُلف کا سر ہونا، کوہِ ہمالیہ سر کرنے جیسا تھا کہ کوئے جاناں میں آبرو گنوانے کا ڈر اور جان جانے کا دھڑکا رہتا تھا۔ پھر زمانے نے کروٹ لی اور حیرت کدۂ انٹرنیٹ وجود میں آیا جس نے وہ کچھ ممکن بنایا جس کا تصور بھی محال تھا۔ نتیجتاً زلف سر ہونا، سر منڈانے سے بھی آسان ہوگیا۔
’زُلف سر ہونا‘ اردو محاورہ ہے۔ اس کے معنی ’وصل کی منزل تک پہنچ جانا، مقصد میں کامیاب ہونا اور مراد کو پہنچنا‘ کے ہیں۔
معلوم حقیقت ہے کہ عربی زبان میں محض اعراب کے بدلنے سے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ اس کی ایک خوبصورت مثال لفظ ’زلف‘ ہے۔
اس کی ایک صورت ’زَلْفُ‘، دوسری ’زِلْفُ‘ اور تیسری ’زَلَفُ‘ ہے۔ یہ تین بظاہر ایک جیسے الفاظ اعراب میں اختلاف کے سبب مختلف معنی رکھتے ہیں۔
ان میں ’زَلْفُ‘ کے معنی ’شب پہرِ اول، قرب اور مرتبہ‘ کے ہیں، تو ’زِلْفُ‘ کا مطلب ’باغ‘، ہے، جب کہ ’زَلَفُ‘ کے مفہوم میں ’بھرا ہوا حوض‘ داخل ہے۔
فارسی میں رائج ’زُلف‘ کی اصل عربی کا ’زَلْفُ‘ ہے۔ اب آپ ’زَلْفُ‘ بمعنی ’شب پہر اول یا کئی پہرشب‘ کو ذہن میں رکھیں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اہل فارس کو شب کی سیاہی جب گیسوئے یار میں نظر آئی، تو انہوں نے مجازاً ان بالوں کو بھی ’زُلف‘ قرار دے دیا۔
پھر ایک ناکام عاشق نے محبوب کی سیاہ زلفوں کو اپنے تیرہ و تار مقدر سے ہم رنگ پایا تو پکار اٹھا:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی
اب ’قرب و نزدیک‘ کے معنی کے ساتھ ’زَلْفُ‘ سے مشتق لفظ ’مُزْدَلِفَةُ‘ پرغور کریں ہے۔ علامہ راغب اصفہانی کے مطابق ’لَیلَۃ المُزْدَلِفَةُ‘ کو اس نام سے اس لیے پکارتے ہیں کہ حجاج کرام عرفات سے لوٹنے کے بعد اس رات منیٰ کے ’قریب‘ پہنچ جاتے ہیں۔
یوں تو فارسی میں ’زُلف‘ بمعنی سر کے بال عام استعمال ہوتا ہے، تاہم لغت نویس یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ ’زُلف‘ کا اطلاق خاص اُن بالوں یا بالوں کی لَٹ پر ہوتا ہے جو کانوں کو چُھوتی ہوں۔
فارسی اور اس کے تعلق سے اردو میں ’زُلف‘ کی نسبت سے بہت سی دلکش تراکیب اور خوب صورت محاورے رائج ہیں۔ مثلاً بال گھنگریالے ہوں تو ’سِلْسِلَۂ زُلْف‘، بال بکھرے ہوں تو ’زلفِ پریشان‘، پُر پیچ ہوں تو ’خمِ زلف‘ جب کہ بالوں کا حلقہ ’کَمَنْدِ زُلْف‘ کہلاتا ہے۔
اگر بال اتنے دراز ہوں کہ کمر تک پہنچ جائیں تو ’زُلف رسا‘ کہلاتے ہیں۔ ایسی ہی دراز زلفوں کے بارے میں مومن خان مومن بہت خوب کہہ گئے ہیں:
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
گیسوئے یار کو ’زُلفِ عنبرین‘ اور ’زُلفِ مشکین‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایسا کہنا دو وجوہ سے ہے۔ اول حقیقی اور دوم مجازی ہے۔
حقیقی وجہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے عرب و عجم میں بالوں میں خوشبو لگانے کا راوج رہا ہے۔ اس کام میں جو خوشبویات استعمال ہوتیں اُن میں ’عنبر‘ اور ’مُشک‘ بھی داخل تھیں۔ یوں یہ جن بالوں میں سماتیں اپنی اپنی نسبت سے ’زُلفِ عنبرین‘ اور ’زُلفِ مشکین‘ کہلاتی تھیں۔
تاہم بعد میں ان تراکیب نے مجازی رنگ اختیار کیا تو ان خوشبویات کی عدم موجودگی میں بھی محبوب کے بالوں کو ’زُلفِ عنبرین‘ و ’زُلفِ مشکین‘ پکارا جانے لگا۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ عہد قدیم کی طرح آج بھی ’عنبر‘ اور ’مُشک‘ گراں قدر خوشبویات میں شمار ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں کا تعلق بحر و بر سے تعلق رکھنے والے دو مختلف جانوروں سے ہے۔
عربی میں وہیل مچھلی کی ایک خاص قسم حُوتُ العَنبَرِ (Sperm whale) کہلاتی ہے۔ یہی وہ مچھلی ہے جس کی قے اور فضلہ مخصوص وقت گزرنے پر قیمتی خوشبو میں بدل جاتا ہے اور ’عنبر‘ کہلاتا ہے۔ یہی ’عنبر‘ انگریزی میں ’Ambergris/ امبرگریس‘ ہے۔
’مُشک‘ بھی مشہور زمانہ خوشبو ہے جو مخصوص نسل کے ہرن سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ ہرن اصطلاح میں ’آہوئے ختن‘ یعنی خُتن کا ہرن‘ کہلاتا ہے۔ اس بات کو حیدر علی آتش کے شعر سے سمجھیں:
ہے جو حیران صفائے رخ حلب میں آئینہ
بوئے زلف یار سے آہو ختن میں مست ہے
پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ ’خُتن‘ مشرقی ترکستان کا علاقہ ہے جہاں وہ ہرن پائے جاتے ہیں جن کے نافے میں مشک پروان چڑھتا ہے۔ جب یہ تیار ہوجاتا ہے تب یہ تھیلی خوب پُھول جاتی ہے۔ تھیلی کے اس پُھول جانے کے سبب ہی اسے ’مُشک‘ کہا جاتا ہے۔
دراصل سنسکرت اور فارسی میں چوہے کو ’مُوش‘ کہا جاتا ہے، یہی موش انگریزی میں ’mouse/ ماؤس‘ ہے۔ ایک طرف ’mouse‘ کا لفظ انگریزی کے ’muscles‘ اور ’muscular‘ کی اصل ہے کہ کسرتی بدن کے سڈول پٹھے چوہے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف ’موش‘ سے ’مُشک‘ اس لیے ہے کہ خوشبو سے بھری تھیلی چوہے کی طرح نظر آتی ہے۔
خیر ذکر تھا ’زُلف‘ کا تو اس حوالے سے تراکیب ’ہم زُلف‘ کا بیان بھی ضروری ہے کہ اکثر احباب اس ترکیب میں ’زُلف‘ کے معنی ’بال‘ لیتے اور اس اصطلاح کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ’ہم زلف‘ خواہرِ نسبتی کے خاوند کو کہا جاتا ہے۔
آغاز میں واضح کر چکے ہیں کہ عربی اور اس کی رعایت سے فارسی میں بھی ’زلف‘ کے ایک معنی ’مرتبہ‘ کے بھی ہیں یوں ’ہم زلف‘ کے معنی ’ہم مرتبہ‘ کے ہیں۔
اردو میں ’ہم زلف‘ کو ’ساڑُو‘ کہتے ہیں، ایک صاحب کو ’ساڑُو‘ کے بھدے پن پر اعتراض تھا، تاہم جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ یہی ’ساڑو‘ پنجابی میں ’سانڈو‘ پکارا جاتا ہے، تو اپنا اعتراض واپس لے لیا۔
فارسی میں ساس کو ’خوش دامن‘ کہتے ہیں۔ جب کہ ’خوش دامن‘ کے دامن سے وابستگان ’ہم دامن‘ کہلاتے ہیں جو دراصل ’ہم زلف‘ کا مترادف ہے۔
بر سبیل تذکرہ عرض ہے کہ جو ہمارے ہاں ’سسر‘ ہے وہ فارسی میں ’خُسر‘ ہے، جو لوگ جانتے ہیں کہ ’س‘ حرف ’خ‘ سے بدل جاتا ہے، انہیں سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ’خُسر‘ دراصل ’سُسر‘ ہی کی دوسری صورت ہے۔