ٹی ٹی پی کو روکنے کے لیے پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
ٹی ٹی پی کو روکنے کے لیے پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
بدھ 4 جنوری 2023 19:26
روحان احمد، اردو نیوز، اسلام آباد
پولیس اہلکار بھی بم حملوں کا نشانہ بنے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
گذشتہ کئی ماہ سے پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے درمیان تعلقات پیچیدگی اختیار کر گئے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اور ان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ملوث ہونا ہے۔
اگست 2021 میں غیر ملکی افواج کے افغانستان کے انخلا اور طالبان کی کابل آمد کے بعد پاکستان متعدد بار طالبان کی عبوری حکومت سے ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو روکنے اور مسلح گروہ کے خلاف اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے ملک بھر خصوصاً خیرپختونخوا میں حملوں کو روکنے کے لیے افغان طالبان کی حکومت کی ثالثی میں ٹی ٹی پی سے سرکاری سطح پر مذاکرات بھی کیے اور یہ مذاکرات پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود بھی جاری رہے لیکن معاملات عارضی جنگ بندی سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکے اور نومبر 2022 میں ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے صحافیوں کو بھیجے گئے اعداد و شمار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس نے سال 2022 میں پاکستان میں 367 حملے کیے جن میں سب سے زیادہ 348 حملے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں کیے گئے۔
ٹی ٹی پی کے اعدادوشمار کی آزادنہ تصدیق کرنا ممکن نہیں لیکن خطے میں شدت پسند تنظیموں پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت آنے کے بعد ٹی ٹی پی کے پاکستان میں حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
سال 2022 کے آخری مہینے دسمبر میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کے روکنے پر ایک خودکش حملہ آور نے خود کو اڑا دیا اور اس حملے میں تین پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔
ان حملوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے یہ عندیہ دیا کہ اگر افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں کرتے تو پاکستان مسلح گروہ کے خلاف افغانستان میں کارروائی کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔
اس بیان کے جواب میں افغان طالبان کے بانی رہنما ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب کے تحت کام کرنے والی افغان وزارت دفاع کی جانب سے سخت بیان جاری کیا گیا۔
جس نے رانا ثنااللہ کے بیان کو ’اشتعال انگیز‘ قرار دیتے ہوئے پاکستان کو تنبیہہ کی کہ ’افغانستان لاوارث نہیں اور ہمیں اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کا بہتر تجربہ ہے۔‘
افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ایسے ثبوت موجود ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے ٹھکانے پاکستان میں موجود ہیں۔
پیر دو جنوری کو پاکستانی حکومت کی قومی سلامتی کمیٹی کے ایک اجلاس میں کالعدم ٹی ٹی پی کی کاروائیوں اور اس حوالے سے افغان حکومت کے رویے پر بھی بات کی گئی اور اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں افغانستان کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ ’کسی بھی ملک کو دہشتگردوں کو پناہ گاہیں یا سہولت کاری فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور پاکستان اپنے عوام کے دفاع کرنے کے حقوق محفوظ رکھتا ہے۔‘
ان حالات میں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ شاید پاکستانی حکومت خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں ایک اور فوجی آپریشن کرنے پر غور کر رہی ہے۔ تاہم سرکاری سطح پر اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
خیبر پختونخوا اور خصوصاً قبائلی اضلاع کی صورتحال
خیبر پختوانخوا کے ایک قبائلی ضلع میں سکیورٹی پر مامور ایک اعلیٰ افسر نے نام نے ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’کم سے کم میں ان اطلاعات کی تردید نہیں کر سکتا کہ دہشتگرد خیبر پختونخوا میں گراؤنڈ پر موجود نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پچھلے کچھ ماہ میں پاکستان بھر میں 14 خودکش دھماکے ہوئے جن میں سے 10 شمالی وزیرستان میں ہوئے۔ اگر دہشتگرد گراؤنڈ پر موجود نہیں تو پھر خودکش دھماکے کیسے ہو رہے ہیں؟‘
سکیورٹی افسر اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’شمالی وزیرستان میں حافظ گُل بہادر کا گروہ سب سے زیادہ متحرک ہے اور یہ گروہ 2012 سے پہلے فوج کا حامی ہوا کرتا تھا لیکن پھر انہوں نے بھی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔‘
سکیورٹی افسر کے مطابق حافظ گُل بہادر کا تعلق وزیر قوم سے ہے جبکہ ٹی ٹی پی کے مرکزی قائدین کی ایک بڑی تعداد کا تعلق محسود قبیلے سے ہے اس لیے دونوں گروہوں میں اختلافات بھی ہیں لیکن حافظ گُل بہادر کے گراؤنڈ پر موجود لوگوں کے لیے اپنی وفاداری بدلنا عام سی بات ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی کا مرکزی گروہ حافظ گُل بہادر کے لوگوں کی کارروائیوں کی بھی ذمہ داری قبول کر لیتا ہے۔‘
سکیورٹی افسر نے بھی دعویٰ کیا کہ خیبر پختونخوا اور اس کے قبائلی اضلاع میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ٹی ٹی پی کی مخالف ضرور ہے لیکن وہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ٹی ٹی پی کی سہولت کاری کرتے ہیں اور انہیں کارروائیوں کے لیے نئے لوگ فراہم کرتے ہیں۔‘
کیا خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشن ممکن ہے؟
پشاور میں مقیم صحافی و تجریہ کار اسماعیل خان کا کہنا ہے کہ ’خیبر پختونخوا میں کوئی باقاعدہ فوجی آپریشن مجھے ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا جس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے پاس اب کوئی نظر آنے والا ٹھکانہ یہاں موجود نہیں جہاں سے اسے ہٹانے کے لیے کسی بڑے فوجی آپریشن کی ضرورت پڑے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب آپ کے سامنے ظاہری طور پر ایک دشمن ہی نہیں تو پھر آپ اس کے خلاف فوجی آپریشن کیسے کریں گے؟‘
اسماعیل خان کے مطابق انہیں نہیں لگتا کہ ایسے کسی بھی فوجی آپریشن کو مقامی عوام کی حمایت حاصل ہوگی کیونکہ ماضی میں بھی آپریشنز کے دوران لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے گھروں سے محروم ہونا پڑا ہے۔
’زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ جو پہلے سے سکیورٹی اداروں کی کارروائیاں جاری ہیں جیسے کے انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن، ان میں تیزی آ سکتی ہے۔‘
افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کے حوالے سے اسماعیل خان کا کہنا ہے کہ ’اس بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا کہ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں موجود نہیں۔ افغان طالبان وہی کر رہے ہیں جو ماضی میں پاکستان کہا کرتا تھا کہ پاکستان میں افغان طالبان کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی کوئٹہ شوریٰ ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی کی تمام قیادت افغانستان میں ہے اور تمام کارروائیاں بھی وہیں سے کی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے صرف سلیپر سیلز کام کر رہے ہیں۔‘
کیا افغانستان کی حدود میں پاکستان ٹی ٹی پی کو ہدف بنا سکتا ہے؟
اسماعیل خان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان سرحد پار کوئی کارروائی کرے گا بلکہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ افغان طالبان کے اعلٰی سطح کے رہنماؤں سے پاکستان بات کرتے گا۔
تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا کہ ’معاملات پر بات چیت ہی ہوگی اور میرا خیال یہ ہے کہ افغان طالبان کسی مقصد کے حصول کے لیے ٹی ٹی پی پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہے ہیں۔‘
پاکستان کی جانب سے بھی افغانستان میں عبوری حکومت سے مزید بات چیت کا عندیہ دیا گیا ہے۔ پیر کو سندھ کے ضلع دادو میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’افغان طالبان ایک حقیقت ہیں لیکن ٹی ٹی پی ایک فتنہ ہے۔‘
سرحد پار ٹی ٹی پی کے خلاف ممکنہ کارروائیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار مشرف زیدی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کو سرحد پار کارروائی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس حوالے سے بین الاقوامی قوانین واضح نہیں ہیں۔‘
ان کے مطابق پاکستان کو افغانستان میں کوئی ’یکطرفہ کارروائی‘ نہیں کرنی چاہیے بلکہ انہیں سفارتی ذرائع کا استعمال انڈیا سے سیکھنا چاہیے۔‘
’دیکھیں انڈیا نے کیسے کشمیر پر کام کرنے والے گروہوں بشمول لشکر طیبہ اور جیش محمد کو دنیا کے خلاف خطرہ بنا کر پیش کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کو اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر فورم پر ٹی ٹی پی کو دنیا کے خلاف خطرہ بنا کر پیش کرنا ہوگا۔
کیا ٹی ٹی پی کے حملے روکنے میں امریکہ پاکستان کی مدد کر سکتا ہے؟
گذشتہ کئی ہفتوں سے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے کئی بار کہا جا چکا ہے کہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
ایسے ہی ایک بیان میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا تھا کہ امریکہ نے کابل میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو نشانہ بنایا اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ واشنگٹن ضرورت پڑنے پر افغانستان میں مزید مسلح گروہوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
امریکہ میں ایک معتبر ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ دورے میں بھی سکیورٹی کے معاملات زیر غور آئے تھے اور رواں مہینے کے آخر اور فروری میں پاکستان کی دو اعلٰی شخصیات نے بھی امریکہ کا دورہ کرنا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ ملاقاتوں میں افغانستان کا مسئلہ بھی زیر غور آئے گا۔
امریکہ میں نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ سے منسلک محقق اور تجریہ نگار کامران بخاری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’ایسا نہیں ہوسکتا کہ امریکا پاکستان کی معاونت نہ کرے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر آپ امریکہ کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو ان کے لیے افغان طالبان، داعش یا پاکستانی طالبان سب ایک ہیں اور ماضی میں امریکہ ٹی ٹی پی کے کئی رہنماؤں کو ڈرون حملوں میں نشانہ بناکر یہ ثابت بھی کر چکا ہے۔‘
کامران بخاری کے مطابق پاکستان میں عدم استحکام امریکہ کے مفاد میں نہیں اور اگر امریکہ اور پاکستان کے درمیان سکیورٹی تعاون پر بات ہوتی ہے تو امریکہ ڈرون حملوں یا الیکٹرانک انٹیلی جنس کے ذریعے بھی پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔
بدھ کو ٹی ٹی پی نے اس حوالے سے صحافیوں کو ارسال کیے جانے والے ایک بیان میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف پر ’امریکہ کی خوشنودی‘ حاصل کرنے کا الزام لگایا ہے اور دھمکی دی ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف حملے کرنے پر بھی غور کر سکتی ہے۔
کامران بخاری افغانستان میں پاکستانی آپریشن کے بھی حامی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے پاس افغانستان کی سرحدی حدود میں کارروائی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جب آپ قبائلی علاقوں میں کارروائیاں کر سکتے ہیں تو انہیں پار کر کے افغانستان میں ٹی ٹی پی کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔‘
تاہم مشرف زیدی کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسی کارروائی جس سے افغان طالبان کی حکومت کا تختہ اُلٹ جائے وہ خطرناک ثابت ہوگا کیونکہ پھر افغانستان میں دیگر خطرناک گروہ سر اٹھا سکتے ہیں۔