Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں 10 فیصد اضافہ

کمیٹی کو بتایا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کی روشنی میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 
قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا ان کیمرہ اجلاس چیئرمین مشاہد حسین سید کی زیر صدارت ہوا جس میں وزارت دفاع کی جانب سے ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر، بنوں سی ٹی ڈی مرکز میں سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنانے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن سمیت پاک افغان بارڈر پر ہونے والے حالیہ واقعات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ 
کمیٹی کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ وزارت دفاع کے حکام نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی ہے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ’اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت وہاں مقیم تھی اور یکساں سوچ ہونے کی وجہ سے افغان حکومت ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی ہے۔‘
حکام نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان حکومت کے ذریعے مذاکرات کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے بہت سے مطالبات غیرآئینی اور غیرقانونی تھے جنھیں ماننا ریاست کے مفاد میں نہیں تھا۔ 
حکام نے بتایا کہ گذشتہ ایک ماہ سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ کارروائیاں ہونے سے پہلے ناکام بنائی گئی ہیں۔ اس طرح بعض واقعات کے ملزمان کو گرفتار یا ہلاک بھی کر دیا گیا ہے۔ 
کمیٹی کو بتایا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کی روشنی میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ 
کمیٹی کو بنوں کینٹ میں سی ٹی ڈی کے حراستی مرکز میں قید دہشت گردوں کی جانب سے عملے کو یرغمال بنانے اور ان کے خلاف آپریشن سے متعلق تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی۔ اس کے علاوہ وزیرستان، ضلع کرم اور دیگر علاقوں میں کی گئی کارروائیوں کے بارے میں بھی بتایا گیا۔
ایک رکن نے بتایا کہ جب حکام سے پوچھا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان کے پاس کتنی بڑی تعداد جنگجو ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی تعداد چار سے ساڑھے چار ہزار کے درمیان ہے۔ 

حکام نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان حکومت کے ذریعے مذاکرات کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کمیٹی اجلاس کے جاری اعلامیہ کے مطابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان خان نے بتایا کہ پاک افغان سرحد پر صورت حال کو افغان حکومت کے ساتھ مسلسل رابطوں کے ذریعے بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بارڈر مینجمنٹ ایک مسلسل عمل ہے اور اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں تبدیلیاں لائی جائیں گی۔ 
اس موقع پر کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پالیسی مزید واضح کرنے اور نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ نیکٹا کو مرکزی کردار دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کا ایک مربوط میکانزم بنانا چاہیے جس تمام ایجنسیاں آن بورڈ اور ہمہ وقت رابطے میں ہوں۔ 
کمیٹی نے دہشت گردی کے خلاف پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ جس طرح پہلے اس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا تھا اسی طرح اب بھی دہشت گردوں کو دوبارہ سر نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔ 

شیئر: