سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا ان کیمرہ اجلاس چیئرمین مشاہد حسین سید کی زیر صدارت ہوا جس میں وزارت دفاع کی جانب سے ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر، بنوں سی ٹی ڈی مرکز میں سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنانے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن سمیت پاک افغان بارڈر پر ہونے والے حالیہ واقعات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
کمیٹی کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ وزارت دفاع کے حکام نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی ہے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ’اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت وہاں مقیم تھی اور یکساں سوچ ہونے کی وجہ سے افغان حکومت ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
-
ٹی ٹی پی کو روکنے کے لیے پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
Node ID: 731566
-
کسی دہشت گرد تنظیم سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے: وزیر داخلہ
Node ID: 731806
حکام نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان حکومت کے ذریعے مذاکرات کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے بہت سے مطالبات غیرآئینی اور غیرقانونی تھے جنھیں ماننا ریاست کے مفاد میں نہیں تھا۔
حکام نے بتایا کہ گذشتہ ایک ماہ سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ کارروائیاں ہونے سے پہلے ناکام بنائی گئی ہیں۔ اس طرح بعض واقعات کے ملزمان کو گرفتار یا ہلاک بھی کر دیا گیا ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کی روشنی میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
کمیٹی کو بنوں کینٹ میں سی ٹی ڈی کے حراستی مرکز میں قید دہشت گردوں کی جانب سے عملے کو یرغمال بنانے اور ان کے خلاف آپریشن سے متعلق تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی۔ اس کے علاوہ وزیرستان، ضلع کرم اور دیگر علاقوں میں کی گئی کارروائیوں کے بارے میں بھی بتایا گیا۔
ایک رکن نے بتایا کہ جب حکام سے پوچھا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان کے پاس کتنی بڑی تعداد جنگجو ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی تعداد چار سے ساڑھے چار ہزار کے درمیان ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/January/36511/2023/355626_3359901_updates-1280x720.jpg)