سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر نے کہا ہے کہ ’بھتہ خوروں کے پاس صنعت کاروں کے اثاثوں کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔‘
جمعرات کو پشاور میں نیوز کانفرنس میں کرتے ہوئے سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر محمد اسحاق نے انکشاف کیا کہ ’جب نامعلوم نمبر سے کال آتی ہے تو پیسوں کی ڈیمانڈ کے ساتھ ہی بھتہ خور تاجر کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری، ’ہر شخص کو اپنی زندگی کا خوف ہے‘Node ID: 720811
-
دہشت گردی، بھتہ خوری کا فتنہ پھر سے جنم لے رہا ہے: شہباز شریفNode ID: 729006
صوبہ خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری ایک بار پھر عروج پر پہنچ چکی ہے۔ نامعلوم کالوں سے صنعت کار بالخصوص تاجر برادری شدید پریشان ہے۔
صدر چیمبر آف کامرس محمد اسحاق نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’سرمایہ دار کی آمدنی، پراپرٹی اور دیگر اثاثوں کا ڈیٹا بھتہ خوروں کے پاس موجود ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا تو صرف ٹیکس ریٹرنز میں شامل ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے پاس یہ ڈیٹا کہاں سے آیا ہے؟
محمد اسحاق نے کہا کہ ’ہمیں اندیشہ ہے کہ ایف بی آر کا ڈیٹا لیک ہو چکا ہے جو اب بھتہ خور استعمال کر رہے ہیں۔‘
’نادرا کو فراہم کردہ ڈیٹا بھی نامعلوم کالر کے پاس دستیاب ہے، کیونکہ زِیراستعمال اسلحے کی تفصیل بھی بھتہ خور کے پاس ہوتی ہے۔ جب پیسے نہ ہونے کا کہا جاتا ہے تو آگے سے بتایا جاتا کہ آپ کے پاس تو لاکھوں روپے کا اسلحہ موجود ہے آپ کیسے غریب ہیں۔‘

محمد اسحاق کے مطابق ’سرمایہ کاروں کے تمام خدشات سے پولیس حکام کو آگاہ کیا جا چکا ہے مگر کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔‘
پشاور کی ایک معروف کاروباری شخصیت نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’افغانستان کے نمبروں سے بھتے کی کالیں آتی ہیں۔ نامعلوم کالر کے پاس میرے بینک اکاؤٹنس کی ساری تفصیلات موجود تھیں۔‘
’مجھے حیرت اس بات پر ہوئی جب بھتہ خور نے میرے کاروبار سے متعلق حساس معلومات مجھے بتائیں۔ آخر یہ انفارمیشن ان شرپسندوں کو کون فراہم کر رہا ہے؟‘
اردو نیوز نے اس معاملے پر حکومتی موقف کے لیے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی عبدالکریم اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف سے رابطہ کیا مگر بات نہ ہو سکی۔‘
واضح رہے کہ آٹھ دسمبر کو اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے صنعت و تجارت عبدالکریم نے کہا تھا کہ ’صنعت کاروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے تاجروں کو مشورہ دیا تھا کہ افغانستان سے کال آنا رواج بن گیا ہے، اس سے تاجروں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کرنا چاہیے۔
