خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری، ’ہر شخص کو اپنی زندگی کا خوف ہے‘
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستانی رکن صوبائی اسمبلی اپنے آبائی شہر مینگورہ میں ووٹرز کے ساتھ بیٹھک سجائے ہوئے تھے کہ ان کے فون پر میسج آیا اور کسی شخص نے عطیات کا مطالبہ کیا۔
صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ پیغام کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے تھا۔
اسی وقت ان کے فون پر دوسرا میسج آیا جس میں خبردار کیا گیا کہ ’مالی معاونت پر انکار کی صورت میں مسائل ہو سکتے ہیں۔ ایک عقل مند شخص سمجھ جائے گا کہ ہمارے اس پیغام کا مطلب کیا ہے۔‘
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ’امید ہے آپ ہمیں مایوس نہیں کریں گے۔‘
طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان میں بھی ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی اور بھتہ خوری کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
صوبائی رکن اسمبلی نے مزید بتایا کہ ٹی ٹی پی کی دھمکیوں میں آکر وہ اب تک 12 لاکھ روپے انہیں ادا کر چکے ہیں۔
’جو پیسے نہیں دیتے انہیں نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ (ٹی ٹی پی) دروازے پر گرینیڈ پھینک جاتے ہیں۔ کبھی گولی مار دیتے ہیں۔’
رکن اسمبلی نے کہا ’ہر شخص کو اپنی زندگی کا خوف ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار امتیاز گل کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان ٹی ٹی پی کے لیے ایک کھلی پناہ گاہ بن گیا ہے۔
’افغانستان میں رہتے ہوئے ان (ٹی ٹی پی) کے پاس کارروائیاں کرنے کی آزادی ہے۔ ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافے کی یہ سب سے سادہ وجہ ہے۔‘
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے مطابق طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جس میں 433 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سوات میں سماجی کارکن احمد شاہ کا کہنا ہے کہ ’ٹی ٹی پی نے ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکیں، اغوا اور بھتے کے لیے فون کرنے کا پرانا کھیل دوبارہ شروع کر دیا ہے۔‘
صوبائی رکن اسمبلی نثار محمند کے اندازے کے مطابق مینگورہ کے ارد گرد کے اضلاع میں رہنے والے 80 سے 95 فیصد رہائشی بلیک میلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔
’سزا و جزا کا ان (ٹی ٹی پی) کا اپنا ہی نظام ہے۔ انہوں نے متبادل حکومت قائم کر رکھی ہے۔‘