Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین: کورونا کے سائے میں ’دنیا کی سب سے بڑی نقل و حرکت‘ کا آغاز

ٹرانسپورٹ کی وزارت نے جمعے کو کہا کہ اگلے 40 روز میں دو ارب سے زائد لوگ سفر کریں گے (فوٹو: روئٹرز)
چین میں ایک بار پھر سے سر اٹھاتی کورونا وائرس کی وبا کے سائے میں نئے قمری سال کی 40 روزہ چھٹیوں کا آغاز ہوا ہے جن میں لوگ بڑی تعداد میں اندرونِ ملک سفر کرتے ہیں۔ اسے دنیا کی سب سے بڑی سالانہ نقل و حرکت کہا جاتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چین میں 2020 میں پھیلنے والی کورونا کی وبا کے بعد یہ پہلی چھٹیاں ہوں گی جن میں اندرونِ ملک سفر پر پابندیاں نہیں لگائی گئیں۔
گذشتہ ماہ سے چین کی ’زیرو کووڈ‘ پالیسی کو دھچکا لگا اور کورونا ٹیسٹنگ، نقل و حرکت پر پابندی اور لاک ڈاؤن کے خلاف تاریخی مظاہرے ہوئے جس کی وجہ سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
سرمایہ کاروں کو امید ہے کہ چھٹیوں کے بعد نصف صدی میں پہلی بار سب سے زیادہ متاثر ہونے والی 17 کھرب ڈالر کی چینی معیشت پھر سے بحالی کی جانب گامزن ہو جائے گی۔
تاہم غیرمتوقع تبدیلیوں نے چین کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی کو کورونا وائرس کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ وبا کی لہر سے ہسپتال بھر گئے ہیں، ادویات کی کمی ہے اور شمشان گھاٹوں کے باہر طویل قطاریں ہیں۔
چین کی ٹرانسپورٹ کی وزارت نے جمعے کو کہا کہ اگلے 40 روز میں دو ارب سے زائد لوگ سفر کریں گے۔
سوشل میڈیا پر اس خبر کے حوالے مختلف تبصرے سامنے آئے۔ کچھ لوگوں نے آزادی سے سفر کرنے اور اپنی فیملی کے ساتھ نئے سال کی چھٹیاں منانے پر خوشی کا اظہار کیا، لیکن دوسرے کچھ افراد کا کہنا ہے بزرگوں میں کورونا کی وبا پھیلنے کے خدشے کی وجہ سے وہ سفر نہیں کریں گے۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ شہروں سے اپنے گھروں کی جانب بڑے پیمانے پر ہونے والی اس نقل و حرکت سے ان چھوٹے قصبوں میں بھی وبا پھیل سکتی ہے جہاں صحت کی سہولیات ناکافی ہیں۔
تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے وبا پہلے ہی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔
بیجنگ میں ’گیویکل ڈریگونومکس‘ کے ایک تجزیہ کار ارنان چوئی نے کہا کہ متعدد آن لائن سروے نشاندہی کرتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں پہلے ہی وبا پھیل چکی ہے اور اب شہری اور دیہی علاقوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔
چین میں کورونا کیسز میں اضافے کے بعد ایک درجن سے زائد ممالک نے چین کے مسافروں کے لیے کورونا ٹیسٹ کی شرط عائد کی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چین کی جانب سے کورونا وائرس سے ہونے والی اموات سے متعلق وضاحت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار وبا کے اصل اثرات نہیں بتا رہے۔

مائیکل ریان نے کہا کہ ’موجودہ اعداد و شمار بیماری کے حقیقی اثرات کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کر رہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جینیوا میں عالمی ادارۂ صحت کے ایمرجنسیز کے ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کورونا وائرس سے متعلق صحافیوں کو بتایا کہ ’ہمارے پاس اب بھی مکمل اعداد و شمار نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہسپتالوں اور انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں داخل مریضوں اور خاص طور پر ہلاکتوں کی تعداد سے متعلق ہمارا خیال ہے کہ چین سے ملنے والے موجودہ اعداد و شمار بیماری کے حقیقی اثرات کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کر رہے۔‘
گزشتہ ماہ بیجنگ کی جانب سے اچانک کئی برسوں کی سخت پالیسیوں سے پابندی اٹھانے، ہسپتالوں میں کیسز بڑھنے اور شمشان گھاٹ معمول سے زیادہ مصروف ہونے کی وجہ سے چین میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے پر تشویش بڑھ رہی ہے۔

شیئر: