انڈیا کی حکمراں جماعت کشمیر میں گرفت کیسے مضبوط کر رہی ہے؟
انڈیا کی حکمراں جماعت کشمیر میں گرفت کیسے مضبوط کر رہی ہے؟
جمعرات 12 جنوری 2023 12:22
مقامی انتخابات میں آشا اپنا ووٹ بی جے پی کو دیں گی۔ (فوٹو: روئٹرز)
انڈیا کے زیرانتظام جموں میں سڑکوں پر صفائی کرنے والی خاتون آشا کو اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ آنے والے مقامی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت ہو گی اور وہ الیکشن میں بی جے پی کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
آشا وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ووٹ دینے کی وجہ یہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے ان پالیسیوں کا خاتمہ کیا جو آشا اور ان کی طرح دیگر لاکھوں افراد کو انڈین شہریوں جیسے حقوق دلانے میں رکاوٹ تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے خاموشی کے ساتھ ذلت کو سہا ہے لیکن مودی جی نے ہماری زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل دی ہیں۔ صرف میں اور میرے بچے ہی نہیں بلکہ جموں و کشمیر میں ہماری آنے والی نسلیں بھی بی جے پی کو ووٹ دیں گی۔‘
توقع کی جا رہی ہے کہ پہلی مرتبہ مقامی انتخابات میں 10 لاکھ سے زائد لوگ ووٹ ڈالیں گے۔ بی جے پی مسلم اکثریتی جماعتوں سے اسمبلی کا کنٹرول حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کا موقف ہے کہ انڈیا کشمیر کے مسلمانوں کو دبانا چاہتا ہے۔
بی جے پی کو امید ہے کہ ووٹر لسٹوں میں 10 لاکھ سے زیادہ ہندو ووٹرز کے اضافے، نئی انتخابی حلقہ بندیوں، اسمبلی میں مزید سات نشستوں کے اضافے اور نو تنظیموں کی حمایت سے وہ 90 نشستوں کی اسمبلی میں بڑی پارٹی بن سکتی ہے۔
روئٹرز نے وفاقی، ریاستی افسران اور وادی کی چھ تنظیموں سے وابستہ افراد سے بات چیت کی ہے اور اس کی بنیاد پر اندازہ لگایا ہے کہ بی جے پی کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟
بی جے پی کی اکثریت کشمیر میں ایک بڑی تبدیلی ہو گی اور یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ کس طرح مودی نے ایک ارب 40 کروڑ آبادی والے ملک کے ہر کونے میں اپنے ایجنڈے کے لیے پرانی روایات کو پامال کیا ہے۔
72 سالہ وزیراعظم نریندر مودی 2024 میں تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے والے ہیں۔ انہوں نے خوشحالی اور سماجی ترقی کے وعدوں سمیت سخت گیر ہندو ایجنڈے کے ساتھ انڈین سیاست پر غلبہ حاصل کیا ہے۔
کشمیر کے متنازع خطے میں بی جے پی کی کامیابی عالمی سطح پر انڈیا کے دعوے کو مضبوط کر سکتی ہے۔
جموں و کشمیر میں بی جے پی کے صدر رویندر رائنا نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہم نے اگلی حکومت کی تشکیل کے لیے زبردست اکثریت کے ساتھ 50 سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا عزم کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگلا وزیراعلٰی ہماری پارٹی سے ہوگا۔‘
واضح رہے کہ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستان کشمیر پر دعویٰ کرتا آیا ہے۔ اس خطے پر پاکستان اور انڈیا دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔ دوسری جانب چین بھی کشمیر کے ایک حصے پر دعویٰ کرتا ہے۔
پاکستان انڈیا پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ کشمیر میں مسلمانوں کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔
روئٹرز کو ایک بیان میں پاکستان کی حکومت نے کہا کہ آبادی کے تناسب کو بدلنے کے لیے انڈیا جموں و کشمیر میں اپنے غیرقانونی قبضے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور کشمیر کو مسلمان اکثریتی علاقے سے ہندو اکثریتی خطے میں بدل رہا ہے۔
2011ء کی مردم شماری کے مطابق انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کا علاقہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ جموں کی آبادی تقریباً 53 لاکھ ہے جن میں 62 فیصد ہندو جبکہ وادی کشمیر کی آبادی 67 لاکھ ہے جن میں مسلمان 97 فیصد ہیں۔
سروے کے افسران اور سینیئر بیوروکریٹس کے اعدادوشمار کے مطابق 2021 میں کشمیر کی آبادی 15 کروڑ 50 لاکھ تھی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے خطے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے سے قبل مسلم رہنماؤں کے ساتھ سیکولر بائیں بازو کی جماعتیں جموں کشمیر کی اسمبلی کو کنٹرول کرتی تھیں۔
خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد متعدد شہری، سکیورٹی اہلکار اور عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں۔
ابھی بہت سے مسلمانوں نے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے لیے درخواستیں دینی ہیں۔
تاہم حکومت نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ ان افراد کے ساتھ کیا ہوگا جو اس سکیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اگرچہ وہ اب بھی مستقل رہائشی کارڈ کے ذریعے مقامی انتخابات میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ ’ڈومیسائل اور حلقہ بندیوں جیسے قوانین کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ریاست کی مسلم اکثریت کو تبدیل کرنا ہے۔‘
محبوبہ مفتی کو 2019ء میں حراست میں لیا گیا تھا اور اسی سال ہی رہا کیا گیا تھا۔
بی جے پی کےصدر رائنا سمجھتے ہیں کہ مودی کی پالیسیوں نے اس خطے میں دہائیوں سے رہنے والے لاکھوں افراد کے ساتھ ہونے والی ان ناانصافیوں کو ختم کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی مسلمانوں کی طاقت کو کمزور نہیں کرنا چاہ رہی بلکہ اس کا مقصد انڈیا کے ہر شہری کو بااختیار بنانا ہے۔
اسمبلی کی 90 نشستوں میں سے نو نشستیں (چھ کشمیر اور تین جموں) میں معاشرے کے پِسے ہوئے طبقات کے لیے مختص ہیں۔ امکان ہے کہ وہ بی جے پی کی حمایت کریں گے۔
بے جی پی نے 2020 میں گھر گھر مہم کا آغاز بھی کیا تھا جس کے تحت ان افراد کی نشاندہی کی جا رہی تھی جو ڈومیسائل کی سہولت سے فائدہ اٹھانا اور ممکنہ طور پر بی جے پی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔