جنیوا کانفرنس: ’چالیس سال کے لیے ایک فیصد شرح سود پر قرض ملا‘
جنیوا کانفرنس: ’چالیس سال کے لیے ایک فیصد شرح سود پر قرض ملا‘
جمعہ 13 جنوری 2023 5:35
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
جنیوا کانفرنس میں پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ڈونرز کانفرنس ہوئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جنیوا کانفرنس میں اعلان کردہ نو ارب 70 کروڑ ڈالر میں سے ایک تہائی رقم اگلے چند ماہ میں پاکستان کو مل جائے گی اور اس میں سے زیادہ تر رقم ایک فیصد شرح سود پر40 سال کے لیے قرض کی مد میں ملے گی۔
اسلام آباد میں صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے پاکستانی وفد کے رکن اور سیکریٹری وزارت پلاننگ اور خصوصی اقدامات سید ظفر علی شاہ نے بتایا کہ ’تقربیا دوارب سے زائد کی رقم رواں مالی سال یعنی جون سے قبل ہی پاکستان کو مل جائے گی جسے سیلاب زدہ علاقوں میں مختلف پراجیکٹس کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ورلڈ بینک کی جانب سے وعدہ کیے گئے دو ارب ڈالر کے حوالے سے کاغذی کارروائی گزشتہ چند ہفتوں میں مکمل کر لی گئی تھی اور منصوبے بھی طے کر لیے گئے ہیں۔ اس میں سے رواں سال کے لیے رکھی گئی رقم اگلے چند ماہ میں مل جائے گی۔‘
ظفر علی شاہ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے گزشتہ دو ماہ سے کام جاری تھا جس کے بعد سیلاب زدگان کی ضرورت کے حوالے سے اہم ترین دستاویز تیار کی گئی تھی۔ ’دستاویز کے مطابق پاکستان کو بحالی کے لیے 16 ارب 30 کروڑ ڈالر کی ضرورت تھی جس میں آدھی رقم کے لیے عالمی برادری سے اپیل کی گئی تھی تاہم نو دسمبر کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ہونے والی کانفرنس میں توقع سے زیادہ رقوم کا اعلان ہوا۔‘
سیکریٹری پلاننگ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی ادارے امداد نہیں قرض ہی دیتے ہیں تاہم مخلتف ممالک نے جو تقریبا ایک ارب ڈالر سے زائد رقم کا اعلان کیا ہے وہ امداد کی شکل میں ملے گی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے ملنے والا قرض انتہائی آسان شرائط پر ہے اور صرف ایک فیصد شرح سود پر پاکستان کو 40 سال میں ادا کرنا ہے۔ دنیا میں اس وقت ایک فیصد شرح سود پر ملنے والا قرض امداد ہی سمجھا جائے گا۔‘
ظفر علی شاہ کے بقول ورلڈ بینک سے ملنے والی رقم زیادہ تر سندھ کی تعمیرِ نو کے منصوبوں میں خرچ ہو گی جس میں سے چھ لاکھ گھروں کی تعمیر کے علاوہ دیگر منصوبے شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسلامی ترقیاتی بینک (آئی ڈی بی) نے جو تین سال میں چار ارب 20 کروڑ ڈالر کا اعلان کیا ہے اس کی شرائط و ضوابط ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ تاہم ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جنیوا میں طے کی جانے والی نو ارب ڈالر سے زائد رقم مالیاتی اداروں کے پہلے سے جاری منصوبوں کے لیے نہیں بلکہ یہ اضافی رقم ہو گی۔
آئی ایم ایف سیلاب کی وجہ سے کوئی رعایت دے گا؟
سیکریٹری وزارت پلاننگ سید ظفر علی شاہ نے بتایا کہ ’جنیوا میں آئی ایم ایف حکام سے بھی بات ہوئی ہے اور مسلسل بات چیت سے ان پر پاکستان کے سیلاب سے پیدا ہونے والے مسائل کے حوالے سے اثر ہو رہا ہے تاہم اس کا حتمی اظہار آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو اگلی قسط کی ادائیگی کے وقت سامنے آئے گا۔‘
آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے پاکستان کو کوئی رعایت ملے گی یا نہیں اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ابھی اس پر وہ ’بات نہیں کر سکتے‘ تاہم انہیں امید ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی جانب سے پاکستان کے حق میں مسلسل بات چیت کا کچھ اثر ہو گا۔
سینیئر بیوروکریٹ کا کہنا تھا کہ جنیوا کانفرنس میں تمام صوبوں کی نمائندگی تھی تاہم سندھ کو زیادہ امداد ملنے کی وجہ وہاں سیلاب کی زیادہ تباہ کاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کانفرنس کی جانب سے ملنے والی رقم میں سے تقریباً 70 کروڑ ڈالر سے خیبرپختونخوا اور اتنی ہی رقم سے پنجاب میں بحالی کا کام کیا جائے گا۔
گوادار میں ترقیاتی کاموں میں پیش رفت
وزارت پلاننگ کے سیکرٹری کا کہنا تھا کہ گوادر میں بندرگاہ کو کامیاب بنانے کے لیے حکومت چینی کمپنی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ ’وہاں پر بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے تین طرح کے منصوبوں پر کام تیز کیا گیا ہے۔ْ ایک تو ایران سے بجلی لانے کے حوالے سے منصوبے کے لیے وزارت نے فنڈز جاری کیے ہیں جبکہ خضدار سے لوکل گرڈ سے بجلی لانے اور مقامی بجلی گھر کی تعمیر پر کام تیز کیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ایئر پورٹ کی چند ماہ میں تکمیل کے ساتھ سڑکوں کی تعمیر تیز کرنے اور بندرگاہ سے مٹی ہٹانے کا کام بھی شروع کیا جا رہا ہے ۔ پانی کی مقامی سپلائی کو بہتر کرنا اور مقامی ووکیشنل کالج کو فعال کرنا بھی ترجیح ہے۔‘
یاد رہے کہ سوموار کو جنیوا کانفرنس میں پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ڈونرز کانفرنس ہوئی تھی جس میں عالمی اداروں اور ممالک نے پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ تین کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد کی بحالی کے لیے نو ارب ڈالر سے زائد امداد دینے کا وعدہ کیا تھا۔ جنیوا کانفرنس میں 40 ممالک کے حکام، پرائیویٹ ڈونرز اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے شرکت کی تھی۔