Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سلیقہ، گھر میں داخل ہوتے ہی نظر آنے والی صفت

باورچی خانے میں لال بیگ کسی ’’پروٹوکول‘‘ کے بغیر گھوم رہے تھے،جیسے وہ ’’اہل و عیال‘‘ کے ساتھ تفریح پر نکلے ہوں
 - - - - - - - - -  - -
عنبرین فیض احمد۔ ریاض

- - - - -  - -

ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ جب ان کے گھر بہو آئے تو ایسی سگھڑ ، سلیقہ مند ہو کہ گھر کا نقشہ ہی بدل ڈالے۔نگر نگر اس کے سگھڑپن اور سلیقہ شعاری کے ڈنکے بجتے ہوں، بہو کی تعریف و توصیف زباں زدِ عام ہو۔ کچھ ایسی ہی خواہش عصمت آراء بیگم کی بھی تھی کہ بہو ان کے اشارے پر ناچے لیکن عصمت آراء کی بڑی بہوؤں نے توان کی ایک نہ چلنے دی۔ کچھ امید باقی تھی تو وہ چھوٹی بہو سے ہی تھی۔ وہ بہو بالکل سیدھی سادھی تھی، ہر بات پر سر ہلاکر اچھا امی کہتی ، اور چلتی بنتی۔ عصمت آراء بیگم کو تقریریں کرنے کا بڑا شوق تھا۔
گھر میں کسی کو ان کی تقریروں سے دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی کسی کے پاس اتنا وقت تھا کہ ان کی تقاریر سنے۔ چھوٹی بہو کی تو جیسے شامت ہی آگئی۔جب دیکھو وہ تقریریں جھاڑ تی رہتیں کہ اے بہو ! کیا حال بنا رکھا ہے تم نے، کبھی اپنا ہار سنگھار بھی درست کرلیا کرو، ارے لگتا ہی نہیں کہ تم چند ماہ کی دلہن ہو۔ ایک ہمارے زمانے میں لڑکیاں تھیں، پورے6 ماہ تک دلہنوں والے روپ میں رہتی تھیں۔ ارے کام توہو ہی جاتے تھے مگر وہ سجنا، سنورنا نہیں بھولتی تھیں اور ایک تم ہو کیا دنیا سے نرالی ہو۔ سرجھاڑ منہ پہاڑ آجاتی ہو، یوں کہہ لو کہ اجڑا چمن بنی رہتی ہو۔ سارا دن کاموں میں جتی رہتی ہو۔ ہم نے کب تمہیں کاموں سے روکا ہوا ہے۔ سارا دن ساس کی تقریریں سن کر بے چاری بہو گھبرا گئی۔ اس نے اپنی ساس کا دھیان بٹانے کیلئے کہا کہ اماں آپ کو اگر چائے کی طلب ہورہی ہے تو چائے بنا دوں؟ یہ سننا تھا کہ اماں پھر سے شرو ع ہوگئیں کہ کہاں بہو! کون ہے جو میرا خیال کرے، کسی کو اپنے کاموں سے فرصت کہاں، میری پروا کسے ہے جو مجھ جیسی بڑھیا کو پوچھے۔ تین بیٹوں کو پال پوس کر بڑا کردیا، اب کسی کو میری ضرورت کہاں۔ سب سے ناشتے کے وقت ہی ملاقات ہوتی ہے ۔
بس سلام کیا اور پھر دفتر کیلئے روانہ ہوگئے۔ چھوٹی بہو کو اپنی ساس پر بڑا ترس آرہاتھا کہ اس عمر میںبے چاری اتناکام کرتی ہیں ۔ اس نے جھٹ ان کیلئے چائے بنانے کیلئے باورچی خانے کا رخ کیا مگر تو باورچی خانہ توکسی جنگ کا میدان دکھائی دے رہاتھا۔لگ رہا تھا جیسے یہاں کوئی زلزلہ آیا ہے ۔ کوئی چیز اپنی جگہ پر موجودنہیں تھی۔ باورچی خانے میں پہنچتے ہی اس کا سر چکرا گیا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کام شروع کہاں سے کیا جائے۔ یہ حالت دیکھ کر وہ بھول ہی گئی کہ وہ کیا کام کرنے آئی تھی۔ گھر کے جس حصے کو سب سے زیادہ صاف ہونا چاہئے تھا وہ کسی کچرا کنڈی کا نقشہ پیش کررہا تھا۔ کیڑے مکوڑے ،لال بیگ کسی ’’پروٹوکول‘‘ کے بغیر آزادانہ ادھر اُدھر گھوم رہے تھے۔
ایسا معلوم ہورہا تھاجیسے وہ کچن میں جا بجا پھیلی گندگی سے ’’لطف ا ندوز‘‘ ہونے کے لئے اپنے ’’اہل و عیال‘‘ کے ساتھ تفریح پر نکلے ہوئے ہیں۔ کہیں بہت سارے لال بیگ ایک جگہ جمع ہوکر کسی ’’گوشۂ غلاظت‘‘ کو لوٹنے کا منصوبہ بنا تے نظر آرہے تھے ۔ یوں لگ رہاتھاکہ اس گھر کا کوئی پرسانِ حال ہی نہیں۔ بہو نے دل ہی دل میں سوچا کہ میرے میکے میں آسائش کی چیزیں نہ ہونے کے برابر تھیں، پھر بھی ہر چیز قرینے اور سلیقے سے سجا کر رکھی جاتی تھی۔ والدین نے یہ تعلیم دی تھی کہ گھر کو سنبھالنا اور سجانا عورت کا کام ہے۔ یہاں ہر چیز وافر مقدار میں ہے مگر سلیقہ نام کو نہیں۔ باورچی خانہ سے نکلتے ہی بہو نے ساس سے پوچھا کہ کھانا کون بناتا ہے؟ ساس اماں سمجھدار تھیں، فوراً اپنی بہو کی بات سمجھ گئیں اور بولیں ارے بہوؤں کے رہتے ہوئے کون جائے باورچی خانے میں۔ویسے بہوؤں کے پاس بھی وقت کہاں ہوتا ہے اس لئے نوکر انیاں ہی پکاتی ہیں۔ ملازموں کے کاموں میں وہ صفائی ستھرائی کہاں جو گھر کی عورتیں اپنے ہاتھ سے انجام دیتی ہیں۔ میری تو کوئی بات ہی نہیں سنتا۔ اب تو میں خود ہی بہوؤں کی محتاج ہوگئی ہوں۔ بیماریوں نے تو مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔
دو وقت کا کھانا بہو ئیں لاکر دے دیتی ہیں تو اللہ کریم کا شکر ادا کرتی ہوں ورنہ اس عمر میں باورچی خانے کا کام میں تو نہیں کرسکتی۔ اپنی زندگی کے دن پورے کررہی ہوں۔ دل تو بہت کڑھتا ہے گھر کی حالت دیکھ کر مگر کیا کروں، کچھ نہیںکر سکتی۔ چھوٹی بہو کو بڑی حیرت ہوئی کہ مجھے پسند کرتے وقت تو ا ماں بی نے طرح طرح کے سوالات، گھر گرہستی کے بارے میں کئے تھے۔ یہاں تک کہ ہمارے گھر کے باورچی خانے اور غسل خانے میں بھی جھانک کر بغور جائزہ لیاتھا۔ انہیں میری پڑھائی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی دیگر دونوں بہوئوںکو بھی کام سے کوئی سروکار نہیں تھا۔نہ ہی انہیںکوئی کام آتا ہے ۔ وہ کام کرنا پسند بھی نہیں کرتیں ، بالکل ہی نکمی ہیں۔ چھوٹی بہو نے باورچی خانے میں قدم رکھا کہ کام شروع کیا جائے۔ دن کے 12 بجے تھے مگر گھر کے باقی افراد سوئے ہوئے تھے ۔ اب باورچی خانے کی صفائی کاکام کیسے کیا جائے۔ کافی دیر تک وہ صفائی کرتی رہی، ہر چیز کی شکل نکل آئی۔ لگ ہی نہیں رہاتھا کہ یہ وہی باورچی خانہ ہے، سارا نقشہ ہی بدل گیا تھا ۔ اسی دوران اس نے اپنی ساس کیلئے سالن بھی تیار کر لیا اور گرم گرم روٹیاں بھی پکا لیں۔ ساس گھر کی بنی روٹیاں اور سالن کھاکر بچوں کی طرح خوش ہورہی تھیں ، مزے لے لے کر کھا رہی تھیں۔ ہر نوالے پر اپنی بہو کو دعائیں دیتی جاتیں جس نے ایک ہفتے میں ہی گھر کا نقشہ تبدیل کردیا تھا۔ آپ کی بہو کے آجانے سے بازار سے روٹی لانے کی میری ایک ڈیوٹی تو کم ہوئی ورنہ روزانہ دفتر سے واپسی پر مجھے گھنٹوں قطار میں روٹی کیلئے کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ اس پر اماں نے جوا ب دیا کہ عورت کی سلیقہ مندی وہ صفت ہے جو گھر کے اندر داخل ہوتے ہی نظر آجاتی ہے۔ اللہ کریم کا شکر ہے،میری دعائیں قبول ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ، میرے بیٹے کی جوڑی سلامت رکھے۔ اماں بی کے دونوں بیٹے شرمندہ ہوکر ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

شیئر: