Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ڈیجیٹل کرنسی پاکستان کے معاشی مسائل حل کر سکتی ہے؟ 

دنیا کی بڑی ڈیجیٹل کرنسیوں میں بٹ کوائن اس وقت 40 فیصد مارکیٹ شئیر کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک میں ڈیجیٹل کرنسی کے فروغ اور اس کو کیش (کاغذ سے بنی نقد رقم) کے مستقل متبادل کے طور پر اپنانے کے متعلق غور و فکر ہو رہا ہے، اور جہاں کئی ممالک نے اس کا جزوی نظام رائج کیا ہے وہاں دو ریاستوں ال سلواڈور اور وسطی افریقی جمہوریہ میں اس کو بالکل ایسے ہی قبول کیا جاتا ہے جیسے ان کے اپنے یا غیرملکی کرنسی نوٹوں کو۔ 
امریکی صدر جو بائیڈن نے مارچ 2022 میں ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے وفاقی اداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ اس معاملے میں قواعد و ضوابط بناتے ہوئے آپس میں ہم آہنگی پیدا کریں۔ فی الوقت امریکی قانون سازی میں اس معاملے کو ترجیح دی جا رہی ہے کہ ان شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ 
وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر موجود ایک رپورٹ کے مطابق ’16 فیصد سے زائد امریکیوں نے کسی نہ کسی کرپٹو کرنسی (ایسی ڈیجیٹل کرنسی جو کسی ملک کے مرکزی ادارے کے ماتحت نہ ہو) میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جبکہ 100 سے زائد ممالک کے مرکزی بینک اپنی ڈیجیٹل کرنسی  شروع کرنے پر کام کر رہے ہیں۔‘
برطانیہ میں کرپٹو کرنسی کو نہ صرف قانونی تحفظ حاصل ہے بلکہ کرپٹو رکھنے والے ٹیکس نیٹ میں بھی لائے جا چکے ہیں۔ چین نے سنہ 2021 میں کرپٹو میں کاروبار، مائننگ اور ٹریڈنگ پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں کرپٹو کرنسی رکھنے پر فی الحال کوئی پابندی نہیں ہے۔
کرپٹوکرنسی کی تجارت کے پلیٹ فارم ’بائنینس‘ پر موجود ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت کرپٹو کرنسی کی کُل مارکیٹ کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر کے قریب ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ’16 فیصد سے زائد امریکیوں نے کسی نہ کسی کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

نومبر 2021 میں یہی مالیت تین ٹریلین کے لگ بھگ پہنچ چکی تھی۔ گزشتہ برس اس میں 50 فیصد کے قریب کمی آئی لیکن ماہرین کے مطابق یہ تجارت اب بحرانوں سے نکل آئی ہے اور اب اس میں واضح اضافے کی توقع ہے۔
اسلام آباد میں ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار سے منسلک محمد نبیل کے مطابق پاکستان کے سٹیٹ بینک نے سال 2018 میں عوام اور اداروں کو کرپٹو کرنسی میں لین دین اورسرمایہ کاری سے منع کیا تھا، مگر ’اب ٹریڈنگ کے کسی بھی پلیٹ فارم پر کوئی پابندی نہیں۔ اُن کے مطابق یہ ہدایات منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے جاری کی گئی تھیں۔  اس سب کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈیجیٹل کرنسی خرید رہی ہے۔‘
گلوبل کرپٹو کرنسی انڈیکس کے مطابق سنہ 2022 میں پاکستان اس کرنسی کے لین دین کی درجہ بندی  میں چھٹے اور 2021 میں تیسرے نمبر پر تھا۔
محمد نبیل کا کہنا تھا کہ ’اگر پاکستانی حکومت ڈیجیٹل کرنسی سے پابندی اٹھا کر اس کا باقاعدہ ٹریڈنگ پلیٹ فارم بنائے تو موجودہ معاشی مشکلات میں فوری کمی ممکن ہو سکتی ہے اور یہ ریوینیو اکٹھا کرنے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر پاکستان نے  بروقت فیصلے نہ کیے اور اس کو اپنانے کے لیے قانون سازی نہ کی گئی تو وقت گزر جائے گا، اور ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔‘

ڈیجیٹل یا کرپٹو کرنسی ہے کیا؟ 

ڈیجیٹل یا کرپٹو کرنسی الیکٹرانک شکل میں دستیاب ایسی کرنسی کو کہتے ہیں جو کاغذی حیثیت نہ رکھتی ہو۔ یہاں ڈیجیٹل اور کرپٹو کرنسی میں بھی فرق واضح رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی ریاستی بینک کی جانب سے جاری کردہ ایسی کرنسی جو کاغذی شکل نہ رکھتی ہو اسے ڈیجیٹل کرنسی قرار دیا جا سکتا ہے ۔البتہ کرپٹو کرنسی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ڈیجیٹل ہونے کے ساتھ ساتھ کسی بھی  مرکزی ادارے کے کنٹرول سے باہر ہو۔ 

برطانیہ میں کرپٹو کرنسی کو نہ صرف قانونی تحفظ حاصل ہے بلکہ کرپٹو رکھنے والے ٹیکس نیٹ میں بھی لائے جا چکے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تقریباً تمام ہی کرپٹو کرنسیاں بلاک چین ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہی ہوتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ لین دین کی کسی بھی ٹرانزیکشن کو کوئی ایک مرکزی ادارہ کنفرم نہیں کرتا، بلکہ ہر ایک ٹرانزیکشن کو مختلف کمپیوٹرز ( جنہیں نوڈز کہا جاتا ہے) کے نیٹ ورک میں بھیجا جاتا ہے جو اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ یوں جب کوئی بھی ٹرانزیکشن ایک جگہ کی بجائے مختلف جگہوں سے تصدیق ہو کر جاتی ہے تو اس میں سکیورٹی کا درجہ بہت بڑھ جاتا ہے۔
ہر ایک ٹرانزیکشن کی تصدیق کے عمل کو مائننگ کہتے ہیں جس کے بعد وہ بلاک چین کے نظام کا حصہ بن جاتی ہے۔ کرپٹو کرنسی کے تبادلے کے لیے کی جانے والی اس مائننگ کے بدلے میں ایک معمولی فیس ملتی ہے جس سے نئے کوائنز جنم لیتے ہیں۔

ڈیجیٹل کرنسی میں سرمایہ کاری قابل اعتماد ہے؟

گو کہ کرپٹو کو مستقبل کی کرنسی کہا جاتا ہے، مگر اس کے حوالے سے قوانین کی عدم موجودگی، پابندیوں اور مارکیٹ کا عدم استحکام کچھ ایسے عوامل ہیں جس پر کچھ ماہرین کو ہمیشہ تحفظات رہے ہیں۔
دنیا میں صرف چند ایک ہی ریاستیں (بنگلہ دیش، چین، الجیریا، بولیویا، کولمبیا، مصر، انڈونیشیا وغیرہ) ہیں جہاں ان کرنسیوں کے کاروبار پر پابندی ہے۔ لیکن میڈیا میں گاہے بگاہے ایسی رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں جن کے مطابق پابندی لگانے والے ان ممالک کے ساتھ دیگر کئی ممالک میں بھی مرکزی بینک کی اجارہ داری والی ڈیجیٹل کرنسیاں لانچ کرنے پر کام ہو رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق جب تک اس مارکیٹ سے متعلق مہارت حاصل نہ ہو جائے اس میں سرمایہ کاری مالی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

سرمایہ کاری کے آپشن

ڈیجیٹل کرنسی کے ماہر مزمل فرقان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس شعبے میں سرمایہ کاری کے دو آپشن ہیں۔ ایک تو آپ کاروبار کریں، یعنی مارکیٹ میں جو کرنسی یا کوائن اچھا لگے اسی پر سرمایہ کاری کریں۔ اس کے لیے مزمل کے مطابق ’وہ خود بھی ’بائنینس‘ کا پلیٹ فارم استعمال کرتے رہے ہیں اور دیگر لوگوں کو بھی اسی پلیٹ فارم کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔‘

تقریباً تمام ہی کرپٹو کرنسیاں بلاک چین ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہی ہوتی ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’سرمایہ کاری کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ کو کسی کرنسی یا کوائن کے حوالے سے مکمل معلومات ہوں، جس کے نتیجے میں آپ اس کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں۔ مثلاً اگر آپ بٹ کوائن کے حوالے سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں تو پھر آپ کے لیے یہ معلوم کرنا آسان ہے کہ کب اس کی ویلیو اوپر جائے گی۔‘
’ایسی صورت میں آپ اس کی مارکیٹنگ بھی کریں گے اور سرمایہ کاری بھی۔ کوئی بھی کوائن، ڈیجیٹل کرنسی جب لانچ ہوتی ہے تو اس کے پیچھے ایک مکمل کاروبار ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر وہ ترقی کرتے ہیں۔‘

دنیا کی بڑی ڈیجیٹل کرنسیاں کون سی ہیں؟

دنیا کی بڑی ڈیجیٹل کرنسیوں میں بٹ کوائن اس وقت 40 فیصد مارکیٹ شئیر کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، اس کے ایک کوائن کی مالیت 20 ہزار امریکی ڈالرکے قریب ہے۔
بٹ کوائن کے بعد ایتھیریم ہے اور پھر تیسرے نمبر پر یو ایس ڈی ٹی ہے جس میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔

کیا صرف چند کرپٹو کرنسیوں میں سرمایہ کاری سود مند ہے؟

مزمل فرقان جنہوں نے متعدد ڈیجیٹل کرنسیوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، بتایا کہ گزشتہ تین برس سے وہ کچھ خاص کرنسیوں میں سرمایہ کاری کر رہے تھے، لیکن اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک یا دو مخصوص کرنسیوں میں سرمایہ کاری تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہر نئی کرنسی کو لانچ کرنے کے پیچھے کچھ بڑے سرمایہ کار ہوتے ہیں، جنہیں مارکیٹنگ کی زبان میں ’وہیل‘ کہا جاتا ہے۔ جب کسی کرنسی میں بڑے سرمایہ کار مسلسل سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس کی ویلیو میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

ایک بٹ کوائن کی مالیت 20 ہزار امریکی ڈالرکے قریب ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’ایسے میں بہت سے لوگوں کی سرمایہ کاری کے باعث جب کوئی کرنسی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے تو ایسے میں بڑے سرمایہ کار اپنی رقم انتہائی منافع کے ساتھ نکال لیتے ہیں۔ یوں کرنسی ڈی ویلیو ہو جاتی ہے اور نئے سرمایہ کار دیکھتے رہ جاتے ہیں۔‘
مزمل فرقان کا مزید کہنا تھا ’وہ کبھی بھی کسی سرمایہ کار کو ایک خاص کرنسی پر انحصار کرنے سے منع کرتے ہیں۔ اور کسی کو بھی ان کرنسیوں کی مارکیٹنگ نہیں کرنی چاہیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کل کو کوئی آپ کے کہنے پر سرمایہ کاری کر کے نقصان نہ اٹھائے۔‘

شیئر: