پاکستان کے شہر لاہور میں نو مئی کی رات کو فیروزپور روڈ پر روہی نالے کے کنارے ایک لاش دیکھ کر راہگیر اکھٹے ہو گئے اور اور پولیس کو اطلاع کر دی۔
پولیس جب موقع پر پہنچی تو لاش کو تحویل میں لے لیا گیا تاہم اسے پہچاننا تقریباً ناممکن تھا۔
مزید پڑھیں
-
ہیکرز لاہور کی اے ٹی ایم مشینوں سے کروڑ روپے کیسے لے اُڑے؟Node ID: 645566
-
لاہور میں قتل کی خونی واردات، جب بھائی نے بھائی کا گھر اجاڑ دیاNode ID: 665916
-
سدھو موسے والا قتل کیس، ہریانہ سے ایک اور شخص گرفتارNode ID: 675066
لاش کے کپڑوں کے اندر سے بھی کسی قسم کی کوئی شناختی دستاویز نہ ملنے پر جب اردگرد تلاشی شروع کی گئی تو پولیس کے علم میں یہ بات آئی کہ ایم جی کمپنی کی ایک مہنگی گاڑی اس لاش سے کوئی آدھا کلومیٹر دور کھڑی تھی۔ شک کی بنیاد پر گاڑی اور لاش دونوں کو تحویل میں لے لیا گیا۔
جلد ہی گاڑی کی ملکیت کے ریکارڈ سے اس کے مالک کی شناخت ایک نجی یونیورسٹی کے پروفیسر سلمان شوکت کے نام سے ہوئی۔
ایف آئی آر درج کرنے کے بعد اس اندھے قتل کا سراغ لگانے کے لیے تفتیشی ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں۔
لاہور پولیس کے انویسٹیگیشن ونگ کے سربراہ کامران عادل نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ ایک مشکل کیس تھا۔ ’جس جگہ پر لاش کو پھینکا گیا تھا وہاں اندھیرا تھا۔ چونکہ روہی نالے کے اردگرد زیادہ تر فیکڑیاں ہیں، اس لیے ہمیں امید تھی کہ پرائیویٹ عمارتوں پر لگے سرویلینس کیمروں کی مدد سے کوئی سراغ مل سکتا ہے۔‘
اور پھر یہی ہوا کہ دو درجن کیمروں کی 24 گھنٹے کی فوٹیج کو کھنگالا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ 8 مئی کو رات گئے دو گاڑیاں اس علاقے میں داخل ہوئیں۔ ایک گاڑی میں سے لاش نکال کر اسے آدھا کلومیٹر دور پارک کر دیا گیا۔
مقدمے کے تفتیشی افسر عدنان بتاتے ہیں کہ دوسری گاڑی کو ٹریس کرنا ایک اور امتحان تھا۔
’ہمیں سیف سٹی کے کیمروں کی مدد لینا پڑی لیکن مشکل یہ تھی کہ چار بڑی سڑکیں روہی نالے کے سنگم پر آتی تھیں۔ پھر جلد ہی ہمیں اس گاڑی کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ قصور سے لاہور میں ایک روز قبل داخل ہوئی تھی۔ بعد ازاں یہ کرائے کی کار ثابت ہوئی تاہم اس کو کرائے پر لینے والے تک ہم پہنچ گئے۔‘
پولیس کو ملزمان تک پہنچنے میں تقریباً ایک ماہ کا عرصہ لگا۔ کرائے پر گاڑی لینے والا ذیشان اصل ملزم نہیں تھا۔
اصل ملزم کون تھا؟
عدالت میں جمع کروائی گئی اب تک تفتیشی رپورٹ کے مطابق اس قتل کا اصل ملزم فراز نامی ایک اے سی سی اے کا طالب علم ہے۔ فراز لاہور کے علاقے نواب ٹاؤن کا رہائشی ہے۔ وہ اور اس کی بیوی دونوں کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرتے ہیں۔
فراز نے پروفیسر سلمان شوکت سے فیس بک پر دوستی کی اور ان سے دو دفعہ لاہور کے مختلف چائے خانوں میں ملاقات بھی کی۔ اسی دوران فراز نے پروفیسر کو بتایا کہ کیسے وہ کرپٹو کرنسی کی خریداری کرتا ہے اور یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ اور اس کے پاس ایسے طریقے ہیں جن کی مدد سے محض کریڈٹ کارڈز کو استعمال کر کے اور بغیر کوئی انویسٹمنٹ کرکے راتوں رات امیر ہوا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہ وہ اس کام کا ماہر ہے۔
پولیس نے جب ذیشان کو گرفتار کیا تو سب ملزم روپوش ہو گئے۔ فراز تک پہنچے میں پولیس کو بڑا وقت لگا۔
