خیبر پختونخوا کے ضلع اپر چترال میں دریا میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے والے 13 برس کے بچے تنویر ضیاء الحق کی لاش تلاش کر لی گئی۔
تنویر ضیاء الحق کی لاش کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد دوسرے گاؤں سے ملی۔ بعض لوگ اسے حادثہ قرار دیتے ہیں جبکہ بعض نے خودکشی قرار دیا کیونکہ اس علاقے میں خودکشی کے واقعات اکثر رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔
تاہم ایک دن بعد خودکشی کرنے والے بچے تنویر ضیاء الحق کے والد کا خط منظر عام پر آیا جس سے کیس کا رخ یک دم مڑ گیا اور کئی سوالات کو اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
چترال میں شادی،غیرمقامی افراد کو ’چال چلن کا سرٹیفیکٹ‘ لانا ہوگاNode ID: 697966
-
چترال: وادی کیلاش کی ’سب سے طویل العمر‘ خاتون انتقال کر گئیںNode ID: 707131
بچے کے والد ضیاء الحق نے اپر چترال کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) کو لکھے گئے خط میں انکشاف کیا کہ ’خودکشی کے اقدام سے ایک دن قبل 21 جنوری کو مقامی دکانداروں نے اس کے بیٹے کو مبینہ چوری کے الزام میں پکڑا اور پولیس کے حوالے کیا۔‘
والد کے مطابق پولیس نے 13 سالہ بچے کو چوکی میں رکھا اور گھنٹوں تک مختلف طریقوں سے پوچھ گچھ کرتی رہی جبکہ بچے پر ایک سے زیادہ چوری کی وارداتوں کا الزام بھی لگایا گیا۔
’اس تمام تر صورتحال کا بچے کی نفسیات پر منفی اثر پڑا اور وہ خوف کی وجہ سے سہم گیا۔‘
والد ضیاء الحق کی درخواست میں بھی بتایا گیا ہے کہ ’گھر جا کر کم سن تنویر ذہنی دباؤ کا شکار رہا اور اگلے دن خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوا۔‘
ضلعی پولیس افسر کو بھیجی گئی درخواست میں دکانداروں اور پولیس چوکی انچارج کے خلاف کارروائی کی اپیل کی گئی ہے۔
مقامی شہری عبدالرؤف نے اردو نیوز کو بتایا کہ دکانداروں کی جانب سے کم عمر تنویر پر گھڑی اور پرفیوم چوری کا الزام لگایا گیا تھا جب پولیس کے حوالے کیا گیا تو کچھ اور دکانداروں نے بھی پرانے واقعات کا ذمہ دار بچے کو ٹھہرایا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’وہاں موجود لوگوں نے بچے کی طرف داری کی اور سوال بھی اٹھایا کہ ان سب الزامات کے کیا ثبوت ہیں؟ مگر سوائے ایک دکاندار کے کسی کے پاس ثبوت موجود نہ تھے۔‘
سماجی رہنما اقرار الدین خسرو کے مطابق بچے کے لواحقین اس وقت شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں اور وہ انصاف کے متلاشی ہیں۔
’لواحقین نے مجھ سے درخواست کی کہ میڈیا تک یہ بات پہنچے تاکہ حکام بالا نوٹس لیں۔‘
اقرار الدین کے مطابق بچے کی موت کی وجہ سے پورے علاقے میں غم کی فضا ہے۔
پولیس کا موقف
ڈی ایس پی محی الدین نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بچے کے والد کی جانب سے بھیجی گئی درخواست پولیس کو موصول ہوئی ہے جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے انکوائری شروع کر دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آج بچے کے والد، دکاندار اور پولیس انچارج کو بلایا گیا ہے اور تفتیش کے بعد پتا چلے گا کہ اصل ذمہ دار کون ہے۔‘
