ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ اُس نے ڈرونز کو مار گرایا ہے جنہوں نے وسطی شہر اصفہان کے قریب فوجی انڈسٹری کو نشانہ بنایا تھا۔ حکام کے مطابق اس میں کوئی جانی یا بڑا نقصان نہیں ہوا۔
اس حملے میں ہونے والی نقصان کی شدت کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکی۔ ایران کے سرکاری میڈیا پر نشر کی گئی ویڈیوز میں آسمان میں روشنی کی لہر اور جائے وقوعہ پر ایمرجنسی سروس کی گاڑیوں کو دکھایا گیا۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اس حملے کے حوالے سے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
عرصہ دراز سے مخاصمت رکھنے والے اسرائیل نے متعدد بار کہا ہے کہ اگر سفارتی کوششوں سے ایران کے ایٹمی یا میزائل پروگرام کو نہ روکا گیا تو وہ وہاں فوجی اہداف کو نشانہ بنائے گا۔ تاہم اسرائیل کی پالیسی رہی ہے کہ مخصوص واقعات پر سرکاری سطح پر تبصرہ نہیں کیا جاتا۔
پینٹاگون کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل پیٹرک ریڈر نے کہا ہے کہ ایران پر حملے میں کوئی امریکی فوجی ملوث نہیں۔ تاہم انہوں نے مزید تبصرے سے انکار کیا۔
سب سے پہلے امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں امریکی عہدیداروں سے یہ بات منسوب کی گئی کہ ایران پر ڈرون حملے کے پیچھے اسرائیل ہے۔
اخبار نے کئی اعلٰی امریکی عہدیداروں کے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر اُن سے حملے کے حوالے سے گفتگو کی جنہوں نے اس کی تفصیلات بتائیں۔
روئٹرز کو ایک امریکی عہدیدار نے ایران پر ڈرون حملے کے پیچھے اسرائیل کا بتایا تاہم دیگر کئی عہدیداروں نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا اور صرف یہ کہا کہ اس حملے میں واشنگٹن نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
حملے کے بعد ایران نے کسی پر بھی الزام عائد نہیں کیا تاہم وزیر خارجہ حسین امیرعبدالاحیان نے اس کو ’بزدلانہ‘ کارروائی قرار دیا جس کا مقصد ملک کے اندر ’عدم تحفظ کا احساس‘ پیدا کرنا تھا۔
ایران کے سرکاری ٹی وی پر پارلیمان کے ایک رکن حسین میرزائی کا یہ بیان نشر کیا گیا کہ افواہ ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہے۔