Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولیس اہلکاروں کا جنازہ پڑھانے والے امام خود بھی دہشت گردی میں لقمہ اجل بن گئے

قاری نورالامین محکمہ پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہوئے تھے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور آج پھر دھماکے سے گونج اٹھا جب پولیس لائن میں دوپہر کی باجماعت نماز کے دوران زور دار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 59 نمازی ہلاک جبکہ 157 زخمی ہوئے۔
اس اندوہناک واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں پولیس لائن مسجد کے امام صاحبزادہ نورالامین بھی شامل ہیں۔
صاحبزادہ نورالامین پشاور کے نواحی گاؤں ماشو گگر کے رہائشی تھے جن کے مرحوم والد فضل عظیم بھی پولیس لائن میں خطیب کے عہدے پر فائز تھے۔ والد کی وفات کے بعد بڑے بیٹے صاحبزادہ نورالامین پیش امام کے  عہدے پر فائز ہوئے۔
قاری نورالامین پانچ سال قبل محکمہ پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوئے تھے۔
قاری نورالامین مسجد میں امامت اور پولیس کی تقریبات میں تلاوت و دعا کے علاوہ دہشت گردی کے واقعات یا ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے  والے پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ پڑھاتے تھے۔
دہشت گردی یا کسی بھی واقعے میں ہلاک ہونے والے بیشتر پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ قاری نورالامین پڑھا چکے تھے۔
پولیس کانسٹیبل محمد سلیمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ مسجد کے خطیب نورالامین انتہائی خوش اخلاق انسان تھے، اسی وجہ سے جونیئر رینک سے لے کر سینیئر افسران تک سب کے ساتھ ان کا اچھا تعلق تھا۔
’کسی بھی پولیس اہلکار کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے بعد نورالامین کئی دنوں تک افسردہ رہتے تھے۔ امام صاحب کو کیا خبر تھی کہ ایک دن وہ بھی پولیس لائن کے اندر شہید کر دیے جائیں گے۔‘
دوسری جانب پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 59 ہوگئی ہے جن میں سے بیشتر کا تعلق پولیس کے مختلف محکموں سے تھا۔ ان میں فرنٹیئر کانسٹیبلری، ہیڈ کانسٹیبل، کمپیوٹر آپریٹر سمیت کلریکل سٹاف شامل ہے۔
دھماکے میں تین انسپکٹر، دو سب انسپکٹر اور سی ٹی ڈی کے اہلکار سمیت 40 پولیس اہلکار جان سے گئے۔ 
دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں رشیدہ نامی ایک خاتون بھی شامل ہیں جو پولیس لائن مسجد سے منسلک سرکاری کوارٹر میں رہائش پذیر تھیں، موقع پر ہی ان کی جان چلی گئی۔
اب تک ہلاک ہونے والے 33 پولیس اہلکاروں کی نمازِ جنازہ ادا کر دی گئی ہے جس میں آئی جی پولیس، کور کمانڈر پشاور، کمانڈنٹ ایف سی سمیت دیگر اعلٰی سرکاری افسران نے شرکت کی۔
واضح رہے کہ پانچ لاشیں جھلسنے کی وجہ سے ناقابل شناخت ہیں۔ 

شیئر: