پشاور دھماکہ: پولیس لائنز سے 23 مشتبہ افراد گرفتار، تفتیش جاری
گزشتہ پانچ برسوں میں کے دوران یہ سب سے زیادہ مہلک دھماکہ ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے کے بعد پولیس نے 23 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔
ایک پولیس افسر نے بدھ کے روز فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یر یہ معلومات دی ہیں۔
واضح رہے کہ پیر کو پشاور کے پولیس ہیڈکوارٹرز کی مسجد میں ہوئے دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 101 تک پہنچ گئی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے بیشتر کا تعلق پولیس فورس سے تھا۔
اے ایف پی کو ایک سینیئر صوبائی پولیس افسر نے بتایا کہ ’حکام اس پہلو پر بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا اس حملے کی پولیس ہیڈکوارٹرز کے اندر سے سہولت کاری تو نہیں ہوئی۔‘
سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ ’ہم نے پولیس لائنز (ہیڈکوارٹرز) کے اندر سے کچھ لوگوں کو حراست میں لیا ہے تاکہ ہم اس معاملے کی تہہ تک پہنچ سکیں کہ دھماکہ خیز مواد آخر اندر پہنچا کیسے اور کیا اس میں کوئی پولیس اہلکار ملوث تو نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حملہ آور اور اس کے سہولت کاروں کے پاکستان سے باہر رابطے تھے۔‘
پولیس افسر نے مزید بتایا کہ ’جن 23 افراد کو حراست میں لیا گیا وہ پشاور شہر اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ متصل قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد پشاور کے آس پاس کے علاقوں میں سکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔
ان میں سے بیشتر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش قبول کرتی رہی ہیں لیکن اس سے قبل ایسا بڑا حملہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
قبل ازیں منگل کو خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ معظم جاہ انصاری نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ’خودکش بمبار مسجد میں ایک مہمان کے طور پر داخل ہوا اور اس دھماکے میں 10 سے 12 کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا جسے مختلف حصوں میں اندر پہنچایا گیا تھا۔’
’اب پولیس کی گاڑی قریب سے گزرے تو ڈر جاتا ہوں‘
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران یہ سب سے زیادہ مہلک دھماکہ ہے۔
اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے پشاور کے ایک تاجر محمد حنیف اعوان نے کہا کہ ’پہلے میں پولیس کے قریب ہوتے ہوئے خود کو محفوظ محسوس کرتا تھا۔ اب جب بھی میرے قریب سے پولیس کی گاڑی یا اہلکار گزریں تو میرے دل میں خوف پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں ان پر حملہ نہ ہو جائے اور میں بھی اس کا نشانہ نہ بن جاؤں۔‘
اُدھر افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ ’دوسروں پر الزامات نہ لگائیں۔‘