Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور دھماکے کے ذمہ داروں کا تعین نہ ہوسکا، پولیس کا احتجاج

بی ڈی یو اہلکار کے مطابق ملبہ مکمل ہٹانے کے بعد مزید شواہد اکھٹے کیے جائیں گے (فوٹو: اے ایف پی)
پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کو آئی جی پولیس نے خودکش حملہ قرار دیا مگر حتمی رپورٹ ابھی تک سامنے نہ آسکی۔
پشاور پولیس لائنز مسجد میں دہشت گردی کے حملے کو تین دن گزر گئے مگر تاحال اس کی گتھی نہیں سلجھ پائی بلکہ مزید الجھ رہی ہے۔
پیر 30 جنوری کو ہونے والے دھماکے کے بعد ٹی ٹی پی مہمند گروپ کی جانب سے ذمہ داری قبول کی گئی اور اسے کمانڈر عمر خالد خراسانی کے قتل کا بدلہ قرار دیا گیا، مگر کچھ ہی گھنٹوں بعد ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے بیان جاری کر کے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔
اس بیان کے بعد حملے کے حوالے سے کئی سوالات اٹھنے لگے جس میں یہ سوال سرفہرست ہے کہ آخر یہ حملہ کس نے کیا؟ 
انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے منگل کے روز پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ ’کالعدم تنظیم نے ذمہ داری قبول کی پھر انکار کیا، مگر یہ کالعدم تنظیمیں جو کام نہیں کرتیں وہ قبول کر لیتی ہیں اور جو کیا ہوتا ہے اس سے انکار کر دیتی ہیں۔‘
آئی جی نے مزید بتایا کہ ’ہمارے اندازے کے مطابق اس حملے میں جماعت الاحرار ملوث ہو سکتی ہے۔‘
دہشت گرد اندر کیسے پہنچا؟
آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری کا کہنا تھا کہ ’پولیس لائنز کے اندر مختلف دفاتر موجود ہیں جہاں روزانہ سینکڑوں سائلین اور مہمان آتے ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’پولیس لائنز میں تعمیراتی کام بھی جاری تھا۔‘
’ہوسکتا ہے کہ بارود تھوڑا تھوڑا کر کے اندر لایا گیا ہو۔ ہم تمام پہلوؤں کا باریکی بینی سے جائزہ لے رہے ہیں، تاہم سکیورٹی لیپس کی تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں۔‘ 
کیا دھماکہ خودکش تھا؟
انسپکٹر جنرل پولیس کے مطابق ’حملہ خودکش تھا، اور حملہ آور کے اعضا ڈی این سے ٹیسٹ کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں، بارودی مواد 10 سے 12 کلوگرام ہو سکتا ہے۔‘

پولیس لائنز مسجد دھماکے سے متعلق بم ڈسپوزل یونٹ نے رپورٹ ارسال کر دی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دھماکے کی وجہ سے چھت گری جس سے نقصان زیادہ ہوا۔‘
بم ڈسپوزل یونٹ کی ابتدائی رپورٹ کیا کہتی ہے؟
پولیس لائنز مسجد دھماکے سے متعلق بم ڈسپوزل یونٹ نے رپورٹ پولیس حکام کو ارسال کر دی ہے جس میں دھماکے کو خود کش قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’ہائی ایکسپلوزیو کا استعمال ہوا، تاہم دھماکے میں ابھی تک بال بیرنگ استعمال کرنے کے شواہد نہیں ملے۔‘
بی ڈی یو کے ایک اہلکار نے اردو نیوز کو بتایا کہ چھت گرنے کی وجہ سے ملبے سے شواہد اکٹھے کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چھت گرنے سے زیادہ نقصان ہوا ہے کیونکہ جائے وقوعہ پر کوئی گڑھا بھی نہیں بنا ہوا۔ ملبہ مکمل ہٹانے کے بعد مزید شواہد اکٹھے کیے جائیں گے۔‘
واضح رہے کہ پولیس دھماکے کے بعد مبینہ حملہ آور کی تصویر بھی شیئر کی گئی جس کا نام حذیفہ اور تعلق ضلع مہمند سے بتایا گیا تھا۔
پشاور لائن دھماکے کے خلاف پولیس اہلکاروں کا احتجاج
پولیس لائنز مسجد دھماکے کے خلاف پشاور اور مردان میں پولیس اہلکاروں نے احتجاج کر کے شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ’ہر بار پولیس کو کیوں قربانی دینا پڑتی ہے کیا ہماری جان اتنی سستی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

پشاور پریس کلب میں بدھ کے روز سول سوسائٹی کی جانب سے امن کا مطالبہ کر کے احتجاج کیا گیا جس میں پولیس کے اہلکار بھی شریک ہوئے۔
پولیس اہلکاروں نے ’ہمیں امن چاہیے‘ کے نعرے لگائے‘ اور سانحہ پولیس لائنز کی شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ’ہر بار پولیس کو کیوں قربانی دینی پڑتی ہے کیا ہماری جان اتنی سستی ہے۔‘
مظاہرے میں شامل ایک پولیس اہلکار نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس واقعے میں ملوث افراد کو عبرت کا نشان بنانا چاہیے، اور اس میں کوتاہی کس کی تھی یہ بھی منظرعام پر لایا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے 100 سے زائد جوان شہید ہوئے، جبکہ 200 سے زائد زخمی پڑے ہیں آخر اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟’
دوسری جانب ضلع مردان میں بھی پولیس اہلکاروں نے پولیس لائنز حملے کے خلاف احتجاج کیا، مظاہرے میں ٹریفک وارڈن بھی شامل تھے۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر پولیس اہلکاروں کی جانب سے پولیس لائن واقعے کی انکوائری کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے۔

شیئر: