سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے 43 ایم این ایز کے استعفے منظور کرنے کے اقدام کو چیلنج کیا گیا تھا۔
ریاض فتیانہ سمیت سابق 43 ارکان قومی اسمبلی کی طرف سے بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔
ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کے بارے میں سپیکر کے 22 جنوری اور الیکشن کمیشن کے 25 جنوری کے نوٹیفکیشن چیلنج کیا گیا تھا۔
علی ظفر نےاپنے دلائل میں کہا کہ اراکین نے 23 جنوری کو سپیکر کو استعفے واپس لینے کے لیے خط لکھا تھا۔ انہوں نے استعفے منظور کرنے سے قبل آئین کے تحت انکوائری نہیں کی۔
’درخواست گزاران کبھی اسپیکر کے پاس پیش نہیں ہوئے۔ اراکین کو سنے بغیر سپیکر استعفے منظور نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ سپیکر اور الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔
رواں برس 24 جنوری کو قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے مزید 43 ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے تھے۔
قومی اسمبلی کے اہلکار نے اردو نیوز کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے چند دن قبل ہی پی ٹی آئی کے مزید 43 ارکان کے استعفے الیکشن کمیشن کو ارسال کر دیے تھے۔
اس سے قبل 20 جنوری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے استعفے منظور کیے جانے کے بعد تحریک انصاف کے 35 ارکان کو ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔
سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تین مختلف اوقات میں مجموعی طور پر 81 ارکان کے استعفے منظور کیے جا چکے ہیں۔
انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے 34 اراکین قومی اسمبلی اور سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کے استعفے منظور کیے تھے جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 35 اراکین قومی اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔