Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پشاور دھماکے کے بعد خیبرپختونخوا میں بڑے آپریشن کی تیاری ہو رہی ہے؟

سوات میں سات فروری ہی کو کبل کے علاقے میں سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کیا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پشاور کے پولیس ہیڈکوارٹرز میں خودکش دھماکے کے بعد خیبرپختونخوا میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کی مشترکہ کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر کے بعد سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن جاری تھا لیکن پولیس لائنز دھماکے کے بعد ان کارروائیوں کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق جنوبی اضلاع ڈی آئی خان، لکی مروت، چارسدہ، صوابی، خیبر، بنوں سمیت پشاور سے متصل ضم شدہ اضلاع میں سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن ہو رہے ہیں جن میں پولیس کے ساتھ دیگر سکیورٹی فورسز بھی شامل ہیں۔
ایس ایس پی آپریشنز کاشف آفتاب عباسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پشاور کے حساس مقامات کی نشاندھی کی گئی ہے۔ ابتدائی طور ان علاقوں میں موجود مشتبہ عناصر کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جارہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انٹلیجنس کی بنیاد پر ہاٹ سپاٹ ایریاز میں آپریشن کریں گے مگر اس وقت ہم معلومات اکٹھی کر رہے ہیں تاکہ ایک منظم طریقے سے آپریشن ہو جو کامیاب ہو سکے۔‘

لکی مروت میں دہشت گرد ہلاک

پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ضلع لکی مروت میں گزشتہ شب(منگل کو) پولیس اور پاکستان آرمی نے مشترکہ آپریشن کرکے 12 دہشت گرد ہلاک کیے جو لکی مروت سے ٹانک حملے کے لیے جا رہے تھے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کا تعلق اظہرالدین گروپ لکی مروت سے تھا جو پولیس پر حملوں میں بھی ملوث رہا ہے۔ 

صوابی میں کامیاب کارروائی

خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی کے ڈی پی او کیپٹن (ر) نجم الحسنین نے 4 فروری کو صوابی میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ’30 جنوری کو پولیس نے کارروائی کر کے دو اہم مطلوب دہشت گرد ہلاک کیے جبکہ سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کے دوران چار دہشت گرد گرفتار کیے گئے جو پولیس پر حملوں کی تیاری میں مصروف تھے۔‘
صوابی پولیس کے مطابق گرفتار دہشت گردوں سے بارودی مواد، ہینڈ گرنیڈ اور اسلحہ برآمد کر لیا گیا ہے۔

ضلع لکی مروت میں گزشتہ شبپولیس اور پاکستان آرمی نے مشترکہ آپریشن کرکے 12 دہشت گرد ہلاک کیے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ضلع چارسدہ میں نستہ کے علاقے میں سات فروری کی شام پولیس اور پاکستان آرمی نے مشترکہ آپریشن کیا اور 7 مشتبہ افراد کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب سوات میں سات فروری ہی کو کبل کے علاقے میں سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کیا گیا جس میں 115 پولیس اور فوج کے 45 جوانوں نے حصہ لیا۔
سوات پولیس کے ترجمان کے مطابق آپریشن میں متعدد مشتبہ افراد گرفتار کیے گئے ہیں جن سے تفتیش جاری ہے۔‘

دہشت گردوں کی جوابی کارروائی

پانچ فروری کو ضلع بنوں کے پولیس سٹیشن چوکی داڑے پر 20 سے زائد دہشت گردوں نے حملہ کیا مگر پولیس کی دفاعی حکمت عملی اور فوری جوابی کارروائی کے باعث دہشت گرد بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
پولیس کے مطابق ’فائرنگ سے پولیس اہلکار محفوظ رہے تاہم دہشت گردوں کے دو ساتھی زخمی ہوئے تھے۔‘
چھ فروری کو ضلع ٹانک کے تھانہ جنڈولہ پر دہشت گردوں نے بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ پولیس اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ 10 منٹ تک جاری رہا۔
دہشت گردوں کے حملے کے بعد مقامی لوگ پولیس کی مدد کے لیے پہنچے جس کے بعد دہشت گردوں کا حملہ پسپا ہوا اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
کامیاب جوابی کارروائی پر آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری نے پولیس جوانوں کی حوصلہ افزائی کی۔

سی ٹی ڈی حکام کا موقف

پولیس کے انسداد دہشت گردی یونٹ (سی ٹی ڈی) کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اُردو نیوز کو بتایا کہ ’دہشت گردوں کے مختلف گروپس ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی کے برعکس دہشت گرد حکمت عملی میں تبدیلی لا چکے ہیں۔‘
’پشاور کے ایک گروپ کا کارندہ لکی مروت جا کر وہاں موجود دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مل کر کارروائی کر رہا ہے، اس لیے ٹریس کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسے عناصر کے بارے میں معلومات اکھٹی کی جا رہی ہیں جن کی تصدیق ہونے کے بعد کارروائی  کی جارہی ہے۔‘

’دہشت گرد قبائلی علاقوں میں فرار ہو جاتے ہیں‘

سینئیر صحافی اور تجزیہ کار محمود جان بابر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’موجودہ حالات میں بڑا آپریشن  نہیں ہو سکتا اور نہ ایسی کوئی صورتحال نظر آرہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہیں۔ جہاں سے انفارمیشن مل رہی ہیں وہاں آپریشن ہورہی ہے۔‘

رواں ہفتے پشاور میں امن مارچ کے عنوان سے ریلیاں بھی نکالی گئیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’جہاں حکومت کی رٹ نہیں، وہاں آپریشن کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلایا جائے گا۔ بالخصوص ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جائے گا جن کے سروں کی قیمت لگ چکی ہے۔‘
محمود جان بابر کا مزید کہنا تھا کہ ’پولیس لائنز دھماکے میں ملوث عناصر کو ہر صورت ڈھونڈ کر ختم کیا جائے گا کیونکہ پولیس کا مورال بحال کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔‘
’جن لوگوں کو ماضی میں استثنیٰ دیا گیا تھا، اس بار ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جنوبی اضلاع قبائلی اضلاع سے متصل ہیں اس لیے دہشت گردوں کے لیے آسان ہدف بنا ہوا ہے۔ یہ لوگ وہاں کارروائی کرکے قبائلی علاقوں میں فرار ہو جاتے ہیں۔‘

شیئر: