Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پیر نہیں سر بدل لیتے ہیں‘، منٹو اور عصمت چغتائی انارکلی کی کرنال شاپ پر

سعادت حسن منٹو سمیت بڑے ادبی نام کرنال شاپ سے شاپنگ کرتے رہے ہیں (فوٹو: ٹی ایف آئی پوسٹ)
پنجاب یونیورسٹی کے ’شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان‘ نے معروف تاریخ دان احمد سعید (2021_ 1942) کی کتاب ’لاہور اک شہرِ بے مثال‘ دو جلدوں میں شائع کی ہے، جس میں لاہور کے بارے میں بڑی نادر اور دلچسپ معلومات ہیں۔
احمد سعید کا کہنا تھا کہ یہ تصنیف ان کی 10 برس کی محنتِ شاقہ کا ثمر ہے۔احمد سعید نے پرانے اخبارات کو ماخذ بنایا اور عرق ریزی سے معلومات کشید کر کے 20 ویں صدی کے نصف اول کے لاہور کی ثقافتی و تمدنی زندگی اجاگر کی۔
اس کتاب کے مطالعے سے بہت سی ایسی باتیں معلوم ہوئیں جن سے وابستہ کئی دوسری کہانیاں یاد سی آ کر رہ گئیں۔ ان میں سے ایک کہانی ہم آپ کو سناتے ہیں۔
’لاہور اک شہرِ بے مثال‘ میں انارکلی بازار میں جوتوں کی مشہور دکان کرنال بوٹ شاپ کا تذکرہ پڑھ کر دھیان اس کے ان تین مایہ ناز گاہکوں کی طرف منتقل ہوا جن کا اردو ادب میں بڑا اونچا مقام ہے۔ سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور ناصر کاظمی۔
1945 میں منٹو اور عصمت چغتائی اپنی کتابوں پر فحاشی کے الزام میں قائم مقدمے کے سلسلے میں بمبئی سے دو دفعہ لاہور  آئے۔ ان دوروں کا مقصد ناگوارِ خاطر تھا لیکن لاہور ان کے لیے چلتی پھرتی ضیافت بن گیا۔ عصمت چغتائی کے بقول ’میرے دل سے بے ساختہ شہنشاہ برطانیہ کے حق میں دعائیہ کلمے نکلنے لگے کہ انہوں نے ہم پر مقدمہ چلا کر لاہور میں عیش کرنے کا سنہری موقع دیا۔‘
بہت سے طالب علموں نے ان فکشن نگاروں کو دیکھنے کے لیے عدالت کا رخ کیا۔ عصمت نے منٹو سے کہا کہ ’منٹو بھائی! چودھری نذیر (لاہور کے معروف ناشر) سے کہیے کہ ٹکٹ لگا دے، کہ یہاں آنے جانے کا کرایہ ہی نکل آئے گا۔‘
جاڑے کے دنوں میں تفریحی سرگرمیوں میں کرنال شاپ کا دورہ بھی شامل تھا جس کا ذکر منٹو نے عصمت چغتائی کے خاکے میں کچھ یوں کیا ہے کہ ’ہم دو دفعہ لاہور گئے اور دو ہی دفعہ ہم دونوں نے کرنال شاپ سے مختلف ڈیزائنوں کے دس دس، بارہ بارہ جوڑے سینڈلوں اور جوتیوں کے خریدے۔ بمبئی میں کسی نے عصمت سے پوچھا ’کیا آپ لاہور کسی مقدمے کے سلسلے میں گئے تھے؟ عصمت نے جواب دیا جی نہیں، جوتے خریدنے گئے تھے۔‘
عصمت چغتائی نے منٹو  کے خاکے میں بتایا کہ ’زری کے جوتے خریدنے ہم دونوں ساتھ گئے۔ منٹو کے پیر بہت نازک اور سفید تھے۔ جیسے کنول کے پھول، زری کے جوتے بہت جچنے لگے۔‘

مقدمے کے سلسلے میں جب عصمت چغتائی لاہور آئیں تو منٹو کے ہمراہ کرنال شاپ سے جوتے خریدے۔ (فوٹو: روای میگزین)

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں نے کہا میرے پیر بہت بھدے ہیں میں نہیں خریدوں گی اتنے خوبصورت جوتے، اس پر منٹو نے کہا کہ اور میرے اتنے زنانے ہیں کہ مجھے ان سے شرم آتی ہے۔‘
عصمت کہتی ہیں کہ ’ہم نے کئی جوڑے جوتے خریدے۔ میں نے کہا آپ کے پیر بہت خوبصورت ہیں۔‘
’بکواس ہیں میرے پیر، لائیے بدل لیں‘
’میں نے رائے دی کہ بدلنا ہی ہے لائیے سر بدل لیں۔ جس پر منٹو نے چہک کر کہا بخدا مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘
انتظار حسین نے ’ملاقاتیں‘ میں لکھا ہے کہ حلقہ ارباب ذوق کے ایک اجلاس میں منٹو نے عصمت کے ساتھ انارکلی سے جوتے خریدنے کا ذکر کیا تو وحید قریشی بولے ’جوتی کا سائز کیا تھا؟‘ منٹو نے اس سوال پر ناراضی ظاہر کی۔
کرنال شاپ کی بات آگے چل کر پھر کرتے ہیں، بیچ میں تھوڑا ذکر عصمت کے لاہور کے بارے میں خیالات عالیہ کا، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس شہر نے کس طرح ان کے دل میں گھر کیا۔
عصمت کے بقول ’لاہور کتنا خوبصورت تھا۔ آج بھی ویسا ہی شاداب، قہقہے لگاتا ہوا، بانہیں پھیلا کر آنے والوں کو سمیٹ لینے والا۔ ٹوٹ کر چاہنے والے بے تکلف زندہ دلوں کا شہر۔ پنجاب کا دل... لاہور کتنا سلونا لفظ ہے... لاہور کی ہوا میں نور گھلا ہوا ہے۔‘
لاہور کے اس ’تفریحی‘ دورے میں احمد ندیم قاسمی نہ صرف مہمانوں کے لیے مالٹے لائے بلکہ انہیں کھانے کا طریقہ بھی بتلایا۔ عصمت چغتائی نے خودنوشت ’کاغذی ہے پیرہن‘ میں لکھا: ’انہوں (قاسمی) نے نفاست سے مالٹے کھانے کی ترکیب بتائی۔ مالٹے کو آم کی طرح پلپلا کر کے چھوٹا سا سوراخ کر لو اور مزے سے چوستے رہو۔ ٹوکڑا بھر مالٹے ہم بیٹھے بیٹھے چوس گئے۔‘
لاہور آنے سے پہلے عصمت کی  گھبراہٹ دیکھ کر منٹو نے ان کی دل جوئی کی۔ لاہور کے جاڑوں کا ذکر کیا جہاں تیکھی سردی پڑتی ہے۔ تلی ہوئی مچھلی کا بتا کر عصمت کا جی للچایا اور ریڈ بلڈ مالٹوں کی تعریف بھی کی۔

منٹو اور عصمت کی باتیں ختم، اب ہم معروف نقاد سہیل احمد خان کی کتاب ’طرفیں‘ سے رجوع کرتے ہیں جس میں ناصر کاظمی اور کرنال شاپ کے تعلق سے بڑی دلچسپ حکایت بیان ہوئی ہے ’ایک روز جناب سجاد باقر رضوی اور میں اورینٹل کالج سے نکل کر انارکلی کی طرف آ رہے تھے کہ موڑ پر ناصر کاظمی سے سامنا ہوا، علیک سلیک کے بعد باقر صاحب نے پوچھا، کہاں جا رہے ہیں؟ ناصر نے جواب دیا، جوتا خریدنے کا ارادہ ہے آپ بھی چلیے۔‘ باقر صاحب نے مجھے کہا ’چلو اس تاریخی لمحے میں شریک ہو جائیں۔‘
’ناصر ہمیں ساتھ لیے انارکلی کے آخر میں جوتوں کی دکان ’کرنال شاپ‘ پہنچا، دکاندار اس کا شناسا تھا۔ ناصر نے زرد رنگ کی گرگابی پسند کی مگر پہن کر کہنے لگا پوری طرح فٹ نہیں۔ دکاندار نے برجستہ کہا میاں نمبر تو آپ کا ہی ہے، اس عرصے میں پاؤں بھاری ہو گیا ہو گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ناصر نے اس فقرے کا خوب لطف لیا اور کہنے لگے جوتے تو اور جگہوں سے بھی مل جائیں گے یہاں تو ہم یہی کچھ سننے آتے ہیں۔‘
ناصر جس طرح دکاندار کے جملے سے محظوظ ہوئے ان کے پسندیدہ شاعر فراق گورکھپوری لاہور میں پولیس افسر کے فقرے سے سرشار ہوئے تھے۔ اس قصے کے راوی ڈاکٹر آفتاب احمد ہیں۔ 1957 میں فراق لائل پور میں مشاعرے کے بعد لاہور آئے تو انہیں پولیس رپورٹ درج کرانے کا خیال نہ رہا تو خاصے پریشان ہوئے کیونکہ وہ قانون ضابطے کے بڑے پابند تھے۔ ناصر کاظمی نے ڈاکٹر آفتاب احمد کو فون پر صورت حال بتائی جنہوں نے ایڈیشنل آئی جی پولیس سے بات کی اور فراق کو ضلع کچہری میں متعلقہ افسر کے روبرو لے گئے جس نے ان سے رپورٹ لکھنے کی درخواست کی۔ فراق نے کہا کہ اس قسم کی رپورٹ کی عبارت انہیں لکھنی نہیں آتی تو وہ انہیں ڈکٹیٹ کروا دیں۔
اس پو پولیس افسر نے کہا ’فراق صاحب آپ جو بھی لکھیں گے، ادب ہی ہو گا۔‘
ڈاکٹر آفتاب احمد نے ’بیادِ صحبت نازک خیالاں‘ میں لکھا ہے کہ پولیس افسر کا جملہ سن کر ’فراق صاحب کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ان کو ایک لمبے تڑنگے گھنی مونچھوں والے پولیس افسر اور وہ بھی ایک قصباتی پنجابی سے اس جملے کی توقع نہیں تھی۔ انہوں نے کار میں بیٹھتے ہی پولیس افسر کے اخلاق و آداب کی تعریف کی۔‘
ناصر کاظمی، فراق اور ڈاکٹر آفتاب کے ایک ساتھ ذکر سے ایک اور کہانی ذہن میں آتی ہے۔

ڈاکٹر آفتاب اور ناصر کی جب بھی ملاقات ہوتی فراق کا تذکرہ ضرور ہوتا۔ دونوں ایک دوسرے کو ان کے شعر سناتے۔ ناصر کے انتقال سے چند دن پہلے ڈاکٹر آفتاب ان سے ملنے گئے تو خلاف روایت فراق پر بات نہ ہوئی لیکن جب وہ رخصت ہونے لگے تو ناصر نے فراق کے یہ شعر سنائے:
ابھی باتیں بہت کرنی ہیں تم سے
ابھی کچھ ہیں مئے و مہتاب باقی
یہ مانا زندگی ہے چار دن کی
بہت ہوتے ہیں یارو چار دن بھی
بات ناصر کے جوتوں کی ہو رہی تھی اور پہنچی فراق اور ان کی شاعری تلک جبکہ ابھی ناصر اور کرنال شاپ کا قصہ بحوالہ باصر سلطان کاظمی درازک رنا ہے، جن کا کہنا ہے کہ پاپا جوتے بڑے اہتمام سے خریدتے تھے اور کرنال شاپ ان کی پسندیدہ دکان تھی۔
ناصر کا قول تھا ’جوتا ایسا ہونا چاہیے کہ مٹھی میں آجائے۔‘ انہوں نے زندگی میں آخری بار جو جوتا خریدا وہ براؤن مکیشن تھا۔ ہسپتال میں ایک دن بیٹے کے پاؤں میں جوتا فٹ آیا تو اسے دان کر دیا۔
بات ’لاہور اک شہر بے مثال‘ سے شروع ہوئی تھی تو اب پھر اسی کی طرف مڑتے ہیں اور اس میں سے کرنال شاپ کے بارے میں کچھ معلومات شئیر کرکے آگے بڑھتے ہیں۔
احمد سعید کی کتاب سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ دکان انارکلی میں کب کھلی البتہ انہوں نے مولانا غلام رسول مہر کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ دکان 1917میں موجود تھی۔ شیخ نصیر احمد اور شیخ عبدالخالق اس کے مالک رہے۔ اشہارات میں شاعری سے بھی کام لیا جاتا۔ 1927میں انقلاب میں شائع شدہ منظوم اشہار جو کتاب میں نقل ہوا ہے اس سے دو شعر ملاحظہ  کیجیے:
دلیلِ پختگی اس سے زیادہ اور کیا ہو گی
کہ ہیں لاہور میں ہی اپنے نو نو سال کے جوتے
ہمارا مال بھی اچھا ہے اور قیمت بھی ارزاں ہے
اسی باعث تو شہرت پا گئے کرنال کے جوتے
زیر نظر مضمون کے ساتھ کرنال شاپ کے دو اشتہار دیکھ کر بھی آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مالک دکان مصنوعات کی تشہیر کے لیے کس اپج سے کام لیتے تھے۔ ایک اشتہار کی سرخی اور ذیلی سرخی دیکھیے:
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
زرنگار۔ خوش وضع۔ سُبک رفتار
اشہتار میں جوتوں کی تصویروں کی ساتھ ان کی اقسام، خاصیت اور قیمت بھی درج ہے۔
کرنال شاپ میں ’لیڈیز روم‘ بھی تھا۔ ایک اشتہار میں یہ اعلان ہے کہ جوتوں میں گتّہ ثابت کرنے والے کو پانچ سو روپیہ انعام دیا جائے گا۔ ہوم ڈلیوری کی سہولت بھی فراہم کی جاتی۔ دکان پر چوری کی واردات کی خبر بھی ملتی ہے جس پر روزنامہ انقلاب نے سردیوں میں انارکلی میں حفاظتی انتظامات مزید سخت کرنے پر زور دیا۔

مشہور کرنال شاپ انارکلی بازار میں واقع تھی۔ (فوٹو: پرل آف پنجاب)

1932 میں زمیندار اخبار نے کرنال شاپ کے جوتوں کی کوالٹی کو سراہا اور اسی پر بس نہ کیا بلکہ بتایا کہ مالکان نہ صرف قومی و ملی تحریکوں میں پیش پیش رہتے ہیں بلکہ ان کی مالی مدد بھی کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر قارئین کو کرنال شاپ سے جوتے خریدنے کی تحریک دی۔
احمد سعید کی کتاب سے ہٹ کر بات کریں تو کئی اور کتابوں میں بھی کرنال شاپ کا حوالہ آتا ہے۔
پران نول نے ’لاہور۔ اے سینٹیمنٹل جرنی‘ میں بتایا ہے کہ گرمی کے موسم میں سینڈل اور پشاوری چپل زیادہ چلتی تھی جس میں کرنال شاپ دوسری دکانوں پر فوقیت رکھتی تھی۔
طاہر لاہوری نے ’سوہنا شہر لاہور‘ اور شاہد حمید نے ’گئے دن کی مسافت‘ میں جوتوں کے اس مرکز کا ذکر کیا ہے۔
تقسیم سے پہلے انارکلی میں مسلمانوں کی جو چند دکانیں تھیں ان میں سے ایک کرنال شاپ تھی، جس کے سائن بورڈ پر جلی حروف میں درج  دکان کانام بھی لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتا تھا۔
اس تحریر کو ہم قرۃ العین حیدر کے ایک بیان پر ختم کرتے ہیں۔ کرنال شاپ سے انہوں نے کبھی جوتے خریدے یا نہیں؟ اس کی خبر نہیں البتہ بچپن میں وہ ایک دفعہ لاہور آئیں تو اس کا اشتہار ان کی نظر سے ضرور گزرا۔
’کار جہاں دراز ہے‘ کی جس عبارت میں یہ حوالہ ہے اس میں لاہور کی ہلکی سی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
’لاہور بڑی چہل پہل کا شہر تھا۔ انارکلی، مال روڈ، لارنس روڈ، شالامار باغ، جہانگیرہ کا مقبرہ، ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کے رنگارنگ ہجوم۔ تمام عورتیں ریشمی کپڑے پہنتی تھیں۔ چھبو خالہ کی عیسائی ’چوڑی‘ یعنی مہترانی بھی ہمیشہ ریشمیں سوٹ میں ملبوس رہتی تھی۔ شہر کی دیواروں پر ’کرنال شاپ‘، ’بھراتاں جی دی ہٹی‘ اور ’کویراج ہرنام داس بی اے‘ کے اشتہار چسپاں تھے۔

شیئر: