Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منٹو کے دو استاد، سالک صہبائی اور فیض احمد فیضؔ

شاعروں ادیبوں میں اب ایسے لوگ ڈھونڈے سے ہی ملیں گے جنھوں نے منٹو کی آنکھیں دیکھ رکھی ہوں (فائل فوٹو: رضا نعیم)
شاعر اور اردو ادب کی نرالی ہستی زاہد ڈار کی زندگی کا مرکز کتاب تھی۔ عمر بھر کام کاج کا روگ نہیں پالا۔ بس کتابوں کے مطالعے میں غرق رہے۔ اس سے خوش وقت کاروبار کہاں۔ ایک دن کتابوں کے اس بے نظیر قاری سے گفتگو میں یہ بات کھلی کہ مطالعے کے معاملے میں ان کے پہلے آئیڈیل سالک صہبائی تھے۔ یہ نام میں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔
زاہد ڈار سے 16 برس کی دوستی میں جو بات چیت ہوتی رہی وہ میرے حافظے میں محفوظ ہے، البتہ ان کی ایک دفعہ کی گفتگو آڈیو ریکارڈنگ کی صورت میں میرے پاس محفوظ ہے۔
اس میں سالک صہبائی کا تذکرہ بھی ہے جس سے ان کے سعادت حسن منٹو سے تعلق کی بابت بھی معلوم ہوتا ہے۔
زاہد ڈار نے ہمیں بتایا:
’منٹو جب سکول میں پڑھتا تھا تو سالک صہبائی کو افسانے دکھایا کرتا تھا۔  وہ اس کو سمجھاتا تھا کہ کیسے لکھنا ہے افسانہ۔ منٹو بھی اسے پسند کرتا تھا کیونکہ وہ بہت اچھا ٹیچر تھا۔ ہم کرشن نگر رہتے تھے۔ وہ بھی کرشن نگر میں رہتا تھا تو ہم پیدل آتے جاتے تھے ساتھ۔۔ سالک صاحب ہمارے آئیڈیل تھے۔ سڑک پر وہ ادھر ادھر دیکھتا نہیں تھا۔ بس کتاب پڑھتے جا رہا ہوتا تھا۔ ساتھ ساتھ باتیں بھی کرتا جاتا تھا۔ لڑکے اس کے آگے پیچھے ہوتے تھے۔ اس کے افسانے چھپتے بھی رہے۔ پہلے سکول کے میگزین میں پھر ادھر ادھر، ’ادب لطیف‘ اور اس طرح کے رسالوں میں۔‘
زاہد ڈار کے بیان کے بعد ہم آپ کو نصر اللہ خان کی خاکوں کی کتاب ’کیا قافلہ جاتا ہے‘ کی طرف لیے چلتے ہیں لیکن پہلے میرؔ کا وہ شعر ملاحظہ کر لیں جس سے کتاب کا عنوان  لیا گیا ہے:
رنگ گل و بوئے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں
 کیا قافلہ جاتا ہے جو تو بھی چلا چاہے

زاہد ڈار کے بقول منٹو جب سکول میں پڑھتا تھا تو سالک صہبائی کو افسانے دکھایا کرتا تھا

نصراللہ خان کی کتاب میں شامل منٹو کے خاکے سے ان کے امرتسر میں بیتے دنوں کے بارے میں دلچسپ معلومات ملتی ہیں۔ ان کے والد محمد عمر خان مسلم ہائی سکول امرتسر کے ہیڈ ماسٹر اور منٹو کے استاد تھے۔ منٹو سے ان کی دوستی تھی۔ وہ لکھنے پڑھنے میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے۔
نصر اللہ خان نے اپنے والد کے ساتھ ساتھ سالک صہبائی کا بھی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ منٹو کی ادبی بنیادیں درست کرنے میں ان کا کردار کس قدر اہم تھا۔ ان کے خاکے سے جہاں استاد شاگرد کے رشتے ناتے کے باب میں علم ہوتا ہے، وہیں سالک صہبائی کی شخصیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
 نصراللہ خان لکھتے ہیں:
’سکول میں منٹو کو کچھ ایسے بزرگ بھی مل گئے تھے جو اردو کے شیدائی تھے۔ شاعر اور ادیب تھے۔ اردو کے استاد رانا مبارک مند خاں سالک صہبائی نے منٹو کو اردو کا چسکا لگایا۔ اس کا خط بڑا پاکیزہ تھا۔ دسویں جماعت میں سالک صاحب اسے روزانہ املا لکھواتے۔ لیکن ہوتا یہ کہ سالک صاحب کو خود ساری املا لکھنا پڑتی۔ ایک لفظ بھی صحیح نہ ہوتا۔ منٹو اور سالک صاحب میں دوستی بڑھنے لگی۔ سالک صاحب بھی اپنی وضع کے ایک ہی بزرگ تھے۔ وہ شاعر بھی تھے اور ادیب بھی۔ بلا کے ذہین انسان۔ صاحب طرزادیب۔ خوب لکھتے تھے۔ بڑا وسیع مطالعہ تھا۔ مسجد کے صحن میں اور مکتب کی چٹائی پر بیٹھ کر پڑھاتے تھے۔ بڑے وضع دار انسان تھے۔ گوشہ نشین اور درویش۔ پنجابی اور دیہاتی۔ کھوئے کھوئے سے رہتے تھے۔ کچھ تو قدرتی طور پر کھوئے ہوئے سے رہتے تھے اور کچھ کھوئے رہنے کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ آنکھوں میں لال لال ڈورے۔ اگر ذرا بن سنور کر رہتے تو یہ ڈورے غضب ڈھانے لگتے۔‘

نصراللہ خان کی کتاب میں شامل منٹو کے خاکے سے ان کے امرتسر میں بیتے دنوں کے بارے میں دلچسپ معلومات ملتی ہیں

’سالک صاحب اردو ادب کی دنیا میں ایک کھویا ہوا امریکا تھے جو ادب کے کولمبسوں کی نظروں سے اوجھل رہا۔ سالک صاحب نے منٹو کے مطالعہ کا رخ بدل دیا۔ اب وہ اعلیٰ معیار کے ناول پڑھنے لگا۔ اچھے اچھے مصنفوں سے روشناس ہوا۔‘
سکول سے نکلنے کے بعد بھی منٹو کا سالک سے رابطہ رہا۔ منٹو نے چیخوف کے دو ڈرامے ’ریچھ ‘ اور ’نسبت‘ ترجمہ کیے جو ’ہمایوں‘ میں شائع ہوئے۔ مترجم کو انہیں’ دو ڈرامے‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کروانے کا شوق چرایا تو اس کے لیے سالک صہبائی سے اشاعتی ادارہ کھلوایا گیا۔
نصراللہ خان نے ادارے کا نام ’حُسنِ خیال بک ڈپو‘ لکھا ہے، جس کی ان کے بقول ’پہلی اور آخری تصنیف منٹو کے ’دو ڈرامے ‘ تھی‘۔

عالمگیر کے روسی ادب نمبر میں ’دو ڈرامے‘ کے اشتہار میں سالک صہبائی کے ادارے کا نام درج تھا

عالمگیر کے روسی ادب نمبر میں ’دو ڈرامے‘ کے اشتہار میں سالک صہبائی کے ادارے کا نام کچھ یوں درج ہے:
حسن خیال کمپنی( شریف پورہ) امرتسر، پنجاب
 اس رسالے میں منٹو کے مرتبہ و مترجمہ ’گورکی کے افسانے‘ کا اشہار بھی شائع ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’حسن خیال کمپنی‘ نے صرف ایک ہی کتاب شائع نہ کی تھی۔
عالگمیر کے خاص نمبر میں روسی ادب کے بارے میں منٹو کے مفصل تعارفی مضمون کے بعد قاری کو پشکن کا افسانہ ’حکم کی بیگم‘ ،پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس کا ترجمہ سالک صہبائی نے کیا ہے۔ مترجم کے طور پر ان کا قلمی نام آر سالک صہبائی بی اے درج ہے۔ گوگول کے  افسانے ’ٹم ٹم‘ کا ترجمہ بھی ان کے قلم سے ہے۔ انہوں نے ایک اور افسانہ ’ضرب آفتاب‘ بھی اردو میں منتقل کیا۔

عالمگیر میں ’گورکی کے افسانے‘ کا اشہار بھی شائع ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’حسن خیال کمپنی‘ نے صرف ایک ہی کتاب شائع نہ کی تھی

گزشتہ دنوں معروف ہفت روزہ  ’لیل ونہار‘ کے 60 برس پرانے پرچے دیکھنے کا موقع ملا تو اس میں بھانت بھانت کی تحریریں پڑھنے کو ملیں۔
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے زمانۂ ادارت میں لائل پور سے ایک صاحب یعقوب اہرانوی کا خط نظر سے گزرا جس میں سالک صہبائی کے انتقال کی خبر تھی۔ خط کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرحوم کا صوفی تبسم سے تعلق تھا۔
مکتوب نگار نے بتایا کہ سالک صہبائی ’لیل ونہار‘کے قاری تھے لیکن صوفی صاحب کے ایڈیٹر بننے کے بعد ان کے لیے یہ رسالہ زیادہ اہمیت اختیار کر گیا۔ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ صہبائی کی متاعِ عزیز یعنی ان کی کتابیں تقسیم کے ہنگاموں کی نذر ہوگئیں۔ پاگل خانوں میں ان کا جانا رہتا تھا۔ انہوں نے اپنے مشاہدات ’ دیوانے کی ڈائری‘ کی صورت میں رقم کیے لیکن وہ بھی ضائع ہوگئی۔
 مکتوب نگار جس نے سالک صہبائی کو اپنا روحانی باپ قرار دیا ہے خط میں لکھتا ہے:
’محترم صوفی صاحب!
آپ تھوڑا سا سوچیں گے تو لاشعور کے دبیز پردوں میں سے چند لکیریں مل کر ایک انسانی شکل کا روپ دھاریں گی۔ وہ شکل سنٹر ٹریننگ کالج لاہور کے ایک طالب علم کی ہوگی۔ ایک ادیب کی ہوگی، سعادت حسن منٹو کے استاد کی ہو گی جب اس نے روسی کہانیوں کا ترجمہ شروع کیا تھا، ان کا یعنی آپ کے اس بزرگ دوست کا حلقہ احباب بہت محدود تھا لیکن وہ ہستیاں تھیں جن پر پاکستان کےعالم و فاضل فخر کرتے ہیں۔ ان کی ماضی کی یادوں کے حسین منظر آپ کی، پطرس بخاری اور سعادت حسن منٹو مرحوم کی محفلوں سے وابستہ تھے۔ کہا کرتے تھے ایک پرچہ شائع ہوتا تھا جو منٹو کی ملکیت تھی لیکن اکثر اس پرچے میں دو نام شائع ہوتے۔ ایک سالک صہبائی اور دوسرا منٹو کا تھا۔ سالک صہبائی تخلص لکھا کرتے تھے لیکن اصل نام رانا مبارک مند بی اے لکھتے تھے۔ وہ تین جون(1962) کی شب کو اچانک اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے۔‘
سالک صہبائی کے منٹو کے استاد ہونے کا ایک حوالہ امرتسر کے لکھاریوں پر میاں ظفر مقبول کی پنجابی کتاب ’امرتسری لکھیار‘ میں بھی ہے جس کی نشاندہی معروف محقق اورگورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے استاد، پروفیسر محمد سعید نے کی۔ ان کی علمی  شناخت کا ایک حوالہ منٹو کے فن و شخصیت سے  گہری دلچسپی ہے جس کا اندازہ ان کی مرتب کردہ  کتاب ’نوادارت منٹو‘ سے کیا جا سکتا ہے۔
’امرتسری لکھیار‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ صہبائی صاحب  منٹو ہی نہیں سیف الدین سیف اور اے حمید کے بھی استاد تھے۔ ان کا خاندان فسادات سے متاثر ہوا۔ تقسیم کے بعد لاہور میں، اسلامیہ ہائی سکول  میں علم کا نور بانٹا۔ بعد ازاں لائل پور (فیصل آباد )کے ایک گاؤں میں منتقل ہو گئے۔ وہیں ان کا انتقال ہوا۔ اوپر ہم نے ’لیل ونہار‘ میں شائع ہونے والے جس خط کا حوالہ دیا ہے، اس کے نیچے274 ج ب لائل پور لکھا ہے۔
زاہد ڈار نے سالک صہبائی کے شوقِ مطالعہ کے بارے میں جو بات کی ہے اس کی تصدیق ظفر مقبول کے نوٹ سے بھی ہوتی ہے:
 ’آپ کو مطالعہ کا اتنا شوق تھا کہ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے بھی کتاب ہی پڑھتے رہتے تھے۔‘
زاہد ڈار کی بات آپ نے پڑھ لی۔ کتابوں اور رسالے کا حوالہ آپ نے دیکھ لیا۔ اب ممتاز شاعر احمد مشتاق کی رائے جانتے ہیں جو امرتسر میں سالک صہبائی کے شاگرد تھے اور لاہور میں منٹو کو انہوں نے دیکھا۔ 40 برس سے امریکا میں ہیں لیکن دل میں امرتسر اور لاہور کی یادیں تابندہ ہیں۔
احمد مشتاق نے ٹیلی فون پر ہمیں بتایا:
’اسلامیہ ہائی سکول کٹرہ خزانہ امرتسر میں سالک صاحب میرے اردو کے استاد تھے۔ زاہد ڈار کا بھائی حامد ڈار میرا کلاس فیلو تھا۔ بعد میں وہ گورنمنٹ کالج میں اکنامکس کا پروفیسر بنا۔ سالک صاحب بہت اچھا پڑھاتے تھے۔ بڑے باذوق۔ سخت گیر۔ ہاتھ میں بید کی چھڑی ہوتی۔ سکول لائبریری کا انتظام بھی ان کے سپرد تھا۔ سراج الدین ظفر کی شاعری مجھے پسند ہے، یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہو گی کہ ایک زمانے میں وہ مزاحیہ مضمون بھی لکھتے تھے جو ’آئینہ‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ میں نے سکول کے زمانے میں سالک صاحب سے یہ کتاب پڑھنے کے لیے مانگی تو انہوں نے کہا کہ یہ تمھاری عمر کے لڑکوں کے پڑھنے کی نہیں ہے۔ وہ بتاتے تھے کہ انہوں نے ’دیوانے کی ڈائری‘ لکھی ہے لیکن وہ کبھی شائع نہیں ہوئی۔  تقسیم کے بعد لاہور میں اسلامیہ ہائی سکول لوئر مال میں پڑھانے لگے جہاں میری ان سے دو تین دفعہ ملاقات ہوئی اور ایک دفعہ میں اعجاز حسین کی کتاب بھی ان سے پڑھنے کے لیے لایا تھا۔ سکول کے قریب سنت نگر میں رہتے تھے۔‘
منٹو اور احمد مشتاق دونوں سالک صہبائی کے شاگرد رہے۔ شاعروں ادیبوں میں اب ایسے لوگ ڈھونڈے سے ہی ملیں گے جنھوں نے احمد مشتاق کی طرح منٹو کی آنکھیں دیکھ رکھی ہوں اور ایسا تو ہمارے درمیان  شاید ہی کوئی اور ہو جو عظیم افسانہ نگار کے ساتھ کسی تصویر میں موجود ہو۔ یہ تصویر پہلی دفعہ 1952 میں ماہنامہ 'ادب ',کراچی میں شائع ہوئی تھی۔
اس تصویر کے پس منظر اور ماہنامہ’ ادب‘ کے ایڈیٹر کے بارے میں احمد مشتاق نے ہمیں بتایا:
’یہ تصویر کراچی سے نکلنے والے رسالے ’ادب ‘میں شائع ہوئی تھی جس کے ایڈیٹر غلام محمد بٹ تھے(اے حمید کی کتاب  'امرتسر کی یادیں' میں بھی  ان کا ذکر  ہے) وہ  قالینوں کا کاروبار کرتے تھے  لیکن ادب سے انھیں بڑی دلچسپی تھی۔ مارکسزم سے متاثر تھے۔ امرتسر میں ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کے شاگرد رہے۔ سیف الدین سیف سے بھی دوستی تھی۔ امرتسر میں سوشلزم سے متاثر نوجوانوں کی اس ٹولی کا حصہ تھے جنھیں بڑے بوڑھے ’الٹی سیدھی‘ باتوں کی وجہ سے جہالتی کہتے۔ یہ تصویرانیس سو پچاس یا اکاون میں مال روڈ پر منٹو صاحب کے لکشمی منیشن میں گھر کے قریب ایک سٹوڈیو میں بنی تھی جس میں منٹو صاحب کے ساتھ شہزاد احمد، ہوش تیموری، حسن طارق اور میں ہوں۔ ‘

یہ تصویر پہلی دفعہ 1952 میں ماہنامہ 'ادب ',کراچی میں شائع ہوئی تھی۔ تصویر میں منٹو، احمد مشتاق، ہوش تیموری، شہزاد احمد اور حسن طارق دیکھے جا سکتے ہیں

ماہنامہ ادب کے مذکورہ شمارے میں منٹو کا افسانہ ’بارہ روپے‘ اور احمد مشتاق کی غزل شائع ہوئی۔
منٹو کے افسانے  کا محل وقوع لاہور ہے۔ کہانی فسادات کے پس منظر میں ہے جس میں ایک سکھ لڑکی کی جان کو خطرہ ہے اور اس کڑے وقت میں ایک ٹانگے والا اس کا سہارا بنتا ہے۔ افسانہ یوں شروع ہوتا ہے:
’عیدے کا ٹانگہ گھوڑا ریگل سینما کے اڈے کی ناک تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب بٹوارہ نہیں ہوا تھا اور مال روڈ زندگی کے بوقلموں رنگوں سے بھرپور تھی، اور جنگ ختم ہونے کے بعد لوگ کھل کھیل رہے تھے۔ اسٹینڈرڈ۔اسٹفلز، لورینگ، وولگا اور میٹرو میں رات بھر ہنگامہ ہاؤ ہو برپا رہتا تھا۔ ظاہر ہے کہ ٹانگے والوں کی چاندی تھی۔ مگر عیدے کی آمدن سب سے زیادہ تھی، اس لیے اس کا ٹانگہ نمبر ون تھا۔‘
احمد مشتاق کے غزل سے دو شعر ملاحظہ ہوں:
 لبوں پہ گیت نگاہوں میں روشنی کی جھلک
مگر دلوں میں گھنے جنگلوں کا سناٹا
بہت عجیب ہے افسانۂ دلِ مشتاق
کہ یہ دیار اجڑ بھی گیا بسا بھی رہا
منٹو اور احمد مشتاق کی یہ یکجائی اس رسالے تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ حلقۂ ارباب ذوق کے ایک اجلاس میں بھی نظر آتی ہے جس کے تفصیل خواجہ عبدالحمید یزدانی کے مضمون ’حلقہ ارباب ذوق تیس سال قبل ‘ میں ملتی ہے۔
اجلاس کی صدارت شاد امرتسری نے کی۔ منٹو نے افسانہ ’سرکنڈوں کے پیچھے‘ پڑھا۔ حاضرین میں سے کسی نے یہ کہہ دیا کہ افسانے میں عریانی ہے تو منٹو صاحب نے اس کا بہت برا منایا۔
احمد مشتاق کی غزل شہزاد احمد نے پڑھ کر سنائی۔ احمد مشتاق نے ہمیں بتایا کہ خود غزل نہ پڑھنے کی وجہ زبان میں لکنت سے زیادہ یہ تھی کہ 19 سال کی عمر میں اتنے نامی گرامی ادیبوں شاعروں  کے سامنے اپنا کلام پڑھنے میں گبھراہٹ ہو رہی تھی۔
حلقے کی کارروائی کے مطابق، حفیظ ہوشیار پوری نےاس شعر کی بڑی تعریف کی:
گلوں کا رنگ اڑا لے چلی ہوائے سحر
مگربہار کے ماتھے پہ اک شکن بھی نہیں
یہ تو حلقہ ارباب ذوق کا قصہ تھا۔ اب ایک کہانی انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس کی۔ جس کے راوی احمد مشتاق ہیں۔ یہ اجلاس دیال سنگھ لائبریری میں ہوا۔اس کی صدارت وجیہہ الدین احمد کو سونپی گئی جنہیں دیکھ کر منٹو  نے کہا کہ ان صاحب کی تعریف؟اب ان کی اپنی ادبی پہچان تو  تھی نہیں اس لیے حمید اختر سے یہی جواب بن پڑا کہ مولانا صلاح الدین احمد کے فرزند ہیں۔منٹو صاحب نے کہا کہ مولانا صلاح الدین احمد تو خیر ہوئے لیکن یہ کون صاحب ہیں؟
اس صورت حال میں جناب صدر نے کہیں منٹو سے یہ کہہ دیا کہ آپ کون ہیں؟ اس گستاخی پر ظاہری بات ہے کہ منٹو کو بھڑکنا ہی تھا۔ اس موقعے پر ضیا جالندھری وجیہہ الدین  کی حمایت میں خم ٹھونک کر میدان میں آئے۔ منٹو سے الجھ پڑے۔ خاصی چخ چخ ہوئی۔ اس کے نتیجے میں منٹو وہاں سے چلے گئے۔
اس واقعے کے بارے میں انتظار حسین نے بھی ’چراغوں کا دھواں ‘ میں لکھا ہے جنہیں اجلاس ختم ہونے کے بعد منٹو کے ہاں ہی جانا تھا۔
انتظار حسین لکھتے ہیں:
’جلسہ کے بعد مجھے بھی منٹو صاحب ہی کی طرف جانا تھا ۔ قصہ یوں تھا کہ عسکری صاحب کا جی تاثیر صاحب سے اب بھر چکا تھا۔ اب وہ روز شام کو منٹو صاحب کی طرف جایا کرتے تھے تو مجھے اپنے پروگرام کے مطابق وہاں پہنچ کر عسکری صاحب سے ملنا تھا اور پھر کہیں آگے جانا تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ منٹو صاحب خوش بیٹھے ہیں اور عسکری صاحب کی بھی باچھیں کھلی ہوئی ہیں۔
منٹو صاحب نے مجھ سے پوچھا ’میرے آنے کے بعد وہاں کیا ہوا؟‘
میں نے تھوڑا آنکھوں دیکھا حال سنایا۔ منٹو صاحب عسکری صاحب سے مخاطب ہوئے’عسکری صاحب میں نے ٹھیک کیا نا؟‘
عسکری صاحب نے تائید میں سر ہلایا ۔ آج کل عسکری صاحب کی منٹو صاحب سے گاڑھی چھن رہی تھی۔‘
بات سے بات نکلتی ہے۔ اس لیے بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں جا پہنچی۔ 
بات کا آغاز سالک صہبائی سے ہوا جو سکول ٹیچر تھے لیکن اپنے شاگردوں میں ادب کا ذوق پروان چڑھانے اور نکھارنے میں پیش پیش رہتے تھے، ان کی یہ سعی، مشکور ہوئی اور ان کے شاگردوں میں منٹو سا عظیم رائٹر بھی ہے اور احمد مشتاق سا منفرد غزل گو بھی۔
امرتسر کے ادیبوں شاعروں کے تعلیمی سفر کے ابتدائی زمانے سے متعلق پڑھیں تو سکول کے اساتذہ کا بڑا اہم کردار سامنے آتا ہے۔ مثالیں تو کئی ہیں لیکن ممتاز نقاد مظفر علی سید سے اچھی مثال کس کی ہو گی جن کی لاہور میں علمیت کا چرچا گورنمنٹ کالج کے زمانے میں ہر سُو پھیل گیا تھا۔
اشفاق احمد کے اپنی والدہ کے بارے میں مضمون میں مظفر علی سید کا ذکر کس تقریب سے آیا ہے۔ آپ بھی پڑھیے:
’ہمارے کالج میں تھرڈ ایئر کا ایک لڑکا مظفر علی سید نامی علم کا دریا تھا اور اس کو مشرق و مغرب کے سارے رموز سے گہری آشنائی تھی۔ سنگ میل پشاور میں میرا چوتھا افسانہ شائع ہو چکا تھا لیکن مجھے ڈی ایچ لارنس کا علم نہ تھا۔ مظفر علی سید نے مجھے بتایا کہ لارنس کا ایک ناولٹ The Man Who Died  پنجاب پبلک لائبریری میں موجود ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک نمبرڈ نسخہ ہے اور پرائیویٹ سرکیو لیشن کے لیے چھاپا گیا ہے۔ اسی نے مجھے بتلایا کہ میرا جی کی نظم ’لب جوئبار‘ کا کیا مفہوم ہے اور ’کیسے تلوار چلی کیسے زمین کا سینہ۔۔۔‘ کا کیا مطلب ہے۔ مظفر علی سید ہی نے مجھے میراسین سے روشناس کرایا اور بتایا کہ میرا جی ساری عمر اس سے اپنا مدعا بیان نہیں کر سکا تھا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے بمبئی چلا گیا تھا، عین اسی طرح جس طرح جارج مور کے ساتھ ہوا تھا ۔ میں جارج مور کے بارے میں الف سے بے نہیں جانتا تھا لیکن میں نے اس طرح سے سر ہلایا جیسے میں نے اس کا سارا لکھا ازبر کر رکھا ہو۔‘
مظفر علی سید نے مشفق خواجہ کو دیئے گئے انٹرویو میں ایم اے او سکول امرتسر کےاستاد مولوی محمد عالم آسی کا خاص طور سے ذکر کیا جن سے انہوں نے فارسی پڑھی تھی۔ مولانا گرامی کے شاگرد تھے۔ مظفر علی سید کے بقول ’استاد بہت عمدہ اور زبان دان بہت دقیق النظر تھے۔‘
لاہور میں سینٹرل ماڈل سکول میں فارسی کے بڑے لائق فائق استاد مرزا ایجاد علی سے اکتساب فیض کیا۔ سکول سے کالج پہنچے تو استاد الاساتذہ صوفی غلام مصطفٰی تبسم کے شاگرد ہوئے جن کا تعلق امرتسر سے تھا۔

منٹو نے ایم اے او کالج امرتسر کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے پراسرار نینا کے خاکے میں فیض احمد فیض کا ذکر کیا ہے (فائل فوٹو: ادب نما)

منٹو کے امرتسر میں سکول ٹیچر سالک صہبائی کے بارے میں آپ نے جان لیا۔  گمنام اور بے نشاں۔ لیکن دوسری طرف ایم اے او کالج امرتسر میں منٹو کے ایک استاد بعد میں عظمت اور ناموری کی بلندیوں تک پہنچے۔یہ استاد کوئی اور نہیں فیض احمد فیض تھے جنہیں جیل میں منٹو کے انتقال کی خبر ملی تو انہوں نے ایلس فیض کے نام  خط میں لکھا:
’منٹو کی وفات کا سن کر بہت دکھ ہوا۔ سب کمزوریوں کے باوجود مجھے نہایت عزیز تھے اور اس بات پر مجھے کچھ فخر بھی ہے کہ وہ  امرتسر میں میرے شاگرد تھے۔ اگرچہ یہ شاگردی کچھ برائے نام ہی تھی۔ اس لیے کہ وہ کلاس میں تو شاید ہی کبھی آتے ہوں۔ البتہ میرے گھر پر اکثر صحبت رہتی تھی اور چیخوف، فرائڈ، موپساں اور نہ جانے کس کس موضوع پر گرم مباحثے ہوتے تھے۔ بیس برس گزر چکے لیکن یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔‘
منٹو نے ایم اے او کالج امرتسر کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے پراسرار نینا کے خاکے میں لکھا:
’اسی کالج میں فیض احمد فیض صاحب جو بڑے افیمی قسم کے آدمی تھے، پڑھایا کرتے تھے۔ ان سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔
ایک ہفتے کی شام کو انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ ڈیرہ دون جا رہے ہیں۔ چند چیزیں انہوں نے مجھے بتائیں کہ میں خرید کر لے آؤں۔ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ اس کے بعد ہر ہفتے ان کے حکم کی تعمیل کرنا میرا معمول ہو گیا۔
وہ دراصل ڈیرہ دون میں ڈاکٹر رشید جہاں سے ملنے جاتے تھے ۔ ان سے غالباً ان کو عشق کی قسم کا لگاؤ تھا۔ معلوم نہیں اس لگاؤ کا کیا حشر ہوا مگر فیض صاحب نے ان دنوں اپنی افیمگی کے باوجود بڑی خوبصورت غزلیں لکھیں۔‘

شیئر: