سٹینڈرڈ ریستوران کا تذکرہ فکشن اور نان فکشن دونوں طرح کی تحریروں میں ملتا ہے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)
لاہور کی مال روڈ پر کتنے ہی ریستوران تھے جو قصۂ پارینہ ہوگئے۔ اب بس ان کی یاد باقی ہے۔ انسانی حافظے میں کوئی یاد کب تک محفوظ رہ سکتی ہے؟ حافظہ ساتھ بھی دیتا رہے تو کیا، عمر کی نقدی نے تو ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔ لیکن یہ قوتِ تحریر ہے کہ امتدادِ زمانہ کی نذر ہوجانے والے مقامات کے بارے میں، صدیوں بعد بھی معلومات فراہم ہو جاتی ہیں۔ گزرے وقتوں میں مال روڈ پر ریگل چوک میں سٹینڈرڈ ریستوران ہوا کرتا تھا جس کا تذکرہ فکشن اور نان فکشن دونوں طرح کی تحریروں میں ملتا ہے۔
آئیے یہ منتشر ٹکڑے جوڑ کر ایک تصویر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ریستوران سے جڑی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے پران نول کی عمدہ کتاب Lahore - A sentimental Journey سے رجوع کرتے ہیں جس کا نعیم احسن کے قلم سے اردو ترجمہ ’لاہور جب جوان تھا‘ ہمارے سامنے ہے۔
’1939 کے لگ بھگ مال روڈ پر سٹینڈرڈ ریستوران کا قیام عمل میں آیا جو ’چائے کے وقت‘ کے انقلاب کا نقیب بنا۔ وہاں پر ایک روپیہ اور چار آنے میں کوئی جس قدر چاہتا چائے پی سکتا تھا اور اس کے ساتھ جتنی تعداد میں چاہے پیسٹریاں، پیٹیز، سینڈوچ اور کیک کھا سکتا تھا ۔ یہ مال پر کھلنے والا پہلا ریسٹورنٹ تھا جہاں ہندوستانی کھانے اورچپاتیاں دی جاتی تھیں۔‘
ہندی کے ممتاز فکشن نگار یشپال کے ناول ’جھوٹا سچ‘ کا آغاز 40 کی دہائی کے لاہور سے ہوتا ہے۔ یہ ناول جسے ہندی سے اردو میں منیرہ سورتی نے منتقل کیا ہے، اس کے پہلے حصے میں تقسیم سے پہلے لاہوریوں کے رہن سہن، ،سماجی رویوں، مختلف قوموں کے آپسی تعلقات اور مسموم سیاسی فضا کا احوال بیان ہوا ہے۔ اس میں کہیں کہیں ’سٹینڈرڈ ‘ کا ذکر بھی ہے:
’اس دن کے بعد پوری اور کنک باہر بھی ملنے لگے۔ شام کے وقت جب پوری کی ڈیوٹی دفتر میں رہتی تو دوپہر کے وقت، جب ریستوران سُونے ہوتے، کنک کالج سے چلی آتی۔ کبھی دونوں مال روڈ پر سٹینڈرڈ میں مل جاتے، کبھی کسی دوسری جگہ پر۔‘
ایک اور جگہ لکھا ہے:
’اس سے پہلے تارا سٹینڈرڈ میں گرٹو کے ساتھ اور امرتا کی پارٹی میں گئی تھی۔ کالج کے ریستوران میں کئی بار لڑکے لڑکیوں کے ساتھ مل جل کر چائے پی لیتی تھی۔ ایک نوجوان کے ساتھ اکیلے ریستوران میں جانا بہت بڑا قدم جان پڑا، کوئی بھی دیکھ کر کچھ کہہ سکتا تھا، لیکن جذبات کے بہاؤ میں منہ سے نکلا،’اچھا....‘....اسد اور تارا سٹنیڈرڈ ریستوران کی اوپر کی گیلری میں ایک کیبن میں بیٹھے تھے۔‘
ایک مکالمہ کچھ یوں ہے:
’کچھ بھی ہو، تھوڑی دیر کے لیے چلیے۔ میں تو آپ کے انتظار میں ہی کھڑی تھی۔‘
پوری لاجواب ہوگیا۔ پوچھا، ’کہاں؟‘
’جہاں آپ چاہیں۔ یا سٹینڈرڈ میں۔‘
سعادت حسن منٹو کے افسانے ’عشقِ حقیقی‘ میں بھی ’سٹنیڈرڈ‘ موجود ہے۔
’فلم ختم ہوا۔ لوگ باہر نکلنے شروع ہوئے۔ لڑکی اور اس کا بھائی ساتھ ساتھ تھے۔ اخلاق ان سے ہٹ کر پیچھے پیچھے چلنے لگا۔
سٹینڈرڈ کے پاس، بھائی نے اپنی بہن سے کچھ کہا، ایک تانگے والے کو بلایا، لڑکی اس میں بیٹھ گئی۔ لڑکا سٹینڈرڈ میں چلا گیا۔ لڑکی نے نقاب میں سے اخلاق کی طرف دیکھا، اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ تانگا چل پڑا۔ سٹینڈرڈ کے باہر تین چار دوست کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک کی سائیکل اس نے جلدی جلدی پکڑی اور تانگے کے تعاقب میں روانہ ہوا۔‘
فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے خود نوشت ’اپنا گریباں چاک‘ میں بتایا ہے کہ علامہ اقبال کی وفات کے بعد وہ ان کے نافذ کردہ ڈسپلن سے آزاد ہوگئے۔ جس راہ پر انھوں نے چلنے سے منع کیا، اسی پر بگٹٹ دوڑے۔ اگر شام کے بعد گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت تھی تو اب وہ آدھی رات سے پہلے گھر نہ پلٹتے۔ فلم دیکھنے پر پابندی تھی تو اب تین تین شو دیکھتے۔
نوجوان جب چوڑ ہوتے ہیں تو پھر ریستوران جانا بھی ان کے معمولات کا حصہ بنتا ہے۔ اس زمانے میں ان جگہوں پر مے نوشی بھی ہوتی تھی۔ رقص کی محفل بھی جمتی تھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس دور کے ہوٹلوں اور ریستورانوں کا ذکر کچھ یوں کیا:
’مال روڈ پر ہی لاہور کے مشہور ریسٹورنٹ اور ہوٹل واقع تھے۔ ان میں لورینگز جو شاہ دین بلڈنگ میں تھا اپنی چائے اور پیسٹریوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ اسی طرح سٹینڈرڈ، سٹیفلز، میٹرو، فلیٹیز، نیڈوز وغیرہ بھی مے نوشی، یورپی طرز کے رقص و سرود اور رات کے کھانے کے لیے مشہور جگہیں تھیں۔ سٹینڈرڈ ریگل چوک میں تھا۔ سٹیفلز وسطی مال روڈ پر واقع تھا۔ میٹرو کی جگہ اب واپڈا کی بلڈنگ ہے، نیڈوز کی عمارت گرا کر اب وہاں آواری ہوٹل بن چکا ہے۔ البتہ فلیٹیز ہوٹل اپنی اصل شکل میں اب تک موجود ہے۔‘
پنجابی کے معروف لکھاری کرنل (ر) نادر علی کی آپ بیتی ’بالپن دا شہر‘ میں بھی سٹینڈرڈ کا حوالہ آتا ہے: ’شامی سٹینڈرڈ چاہ پین جاندے سن وڈے بھرا۔‘ یہ 1942 کی بات ہے۔ بچپن کے اسی دور میں نادر علی نے سینما میں پہلی دفعہ فلم دیکھی۔
ممتاز تاریخ دان کے کے عزیز کی کتاب ’کافی ہاؤس آف لاہور(57-1942)‘ سے سٹینڈرڈ ریستوران کے بارے میں خاصی معلومات ملتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پہلا مغربی ریسٹورنٹ تھا جہاں جانا متوسط طبقے کے افراد بھی افورڈ کر سکتے تھے جبکہ اشرافیہ اور امراء سٹیفلز اور لورینگز کا رخ کرتے۔ ان دونوں ریستورانوں کے بارے میں ممتار فکشن نگار اکرام اللہ اپنی کتاب ’جہانِ گزراں‘ میں لکھتے ہیں:
’شاہ دین بلڈنگ میں لورینگز اور قریب ہی سٹیفلز، دو نامور ریستوران، جتنے اعلیٰ اسی قدر مہنگے کہ دام شاہوں کی جیب پر بھاری پڑیں۔ گوری انتظامیہ کے تحت راجوں، نوابوں، امیر انگریزوں اور بڑے بڑے دیسی آدمیوں کے لیے چل رہے تھے۔‘
کے کے عزیز کے مطابق دو بڑے ہالوں پر مشتمل سٹینڈرڈ ریستوران سرِشام اپنے دروازوں سے مال روڈ کے فٹ پاتھ کے بیچ خالی جگہ پر پھیل جاتا جہاں پانی کا چھڑکاؤ ہوتا، میزیں اور کرسیاں ترتیب سے ڈال دی جاتیں اور اونچے کھمبوں پر آویزاں بتیوں کی روشنی میں تقریباً ایک نیا ٹی ہاؤس اوپن ائیر میں وجود میں آ جاتا۔
کے کے عزیز نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں دکانیں شام پانچ بجے بند ہو جاتیں اور مال روڈ پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر رہ جاتی۔ اس ماحول میں لوگ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ کھلے میں بیٹھ کر گرم گرم چائے پیتے، کیک، پیسٹریاں اور پیٹیز کھاتے، باتیں کرتے، قہقہے لگاتے اور جینے کا مزہ لیتے۔
کے کے عزیز نے یہ بات بھی نوٹ کی ’کسٹمرز میں خواتین بھی ہوتی تھیں لیکن سرِراہ چلتے مرد، عورتوں کو گھور گھور کر نہیں دیکھتے تھے بلکہ چائے پینے والوں پر تحسین، دلچسپی اور ان کہے تعلقِ خاطر سے نگاہ ڈالتے کیونکہ وہ ایک شائستہ زمانہ تھا۔‘
کے کے عزیز کا کہنا ہے کہ ریستوران میں ہندو اور سکھ خواتین اپنے خاندان کے ہمراہ آ جاتی تھیں لیکن مسلمانوں میں صرف مرد نظر آتے۔ ان کے مطابق تقسیم کے بعد سٹینڈرڈ زیادہ عرصہ نہیں چل سکا کیونکہ گاہکوں کی بڑی تعداد لاہور سے چلی گئی اور اس کا انجام بھی دیگر ہندو اور یورپین ہوٹلوں کی طرح ہوا، کہ اب نئے لاہوری مل بیٹھنے کے لیے کسی اور طرح کی جگہ کے خواہاں تھے۔
سٹینڈرڈ کی طرف کھنچے چلے آنے کی ایک وجہ اینگلو انڈین ڈانسر اینجلا کا رقص بھی تھا جس کا ذکر کئی معروف ادیبوں نے کیا ہے۔ نامور فکشن نگار مستنصر حسین تارڑ جن کا بچپن سٹینڈرڈ کے قریب لکشمی مینشن میں گزرا، ان کے ناول ’راکھ‘ میں بھی اس ریستوران کا تذکرہ موجود ہے:
’لکشمی مینشن کے سہ منزلہ فلیٹوں کی لمبی مستطیل چھت پر مشاہد کی کھلی آنکھوں پرجو آسمان تھا اس کی نیم تاریکی میں صرف ریگل چوک کے پار ’سٹینڈرڈ‘ کے اوپن ایئر ریستوران میں سجاوٹ کے قمقموں کی ہلکی روشنی تھی جو اس تاریکی میں آگے ہو کر بجھتی جاتی تھی اور اس کے کانوں میں موسیقی اور تماشائیوں کا ہلکا شور تھا اور اس شور کے درمیان سڑک کے پار سٹینڈرڈ کی چھت پر شہر لاہور کی اکلوتی اور من پسند ڈانسر اینجلا ناچ رہی تھی۔‘
’آج رات بھی ریگل چوک کے پار ’سٹینڈرڈ ‘ کے اوپن ائیرریستوران سے موسیقی اور تماشائیوں کا ہلکا سا شور اٹھتا تھا اور شہر لاہور کی اکلوتی اور من پسند ڈانسر اینجلا ناچتی تھی۔‘
اینجلا کے رقص کا ذکر ممتاز ادیب انتظار حسین نے ’چراغوں کا دھواں‘ میں بھی کیا ہے لیکن انھوں نے جو دلچسپ ماجرا لکھا ہے وہ سٹینڈرڈ نہیں میٹرو ہوٹل سے تعلق رکھتا ہے۔
سعید حسن خان کی کتاب Across the Seas: Incorrigible Drift میں اینجلا کا ذکر ہی نہیں اس کی تصویر بھی ہے۔
اے حمید نے سٹینڈرڈ کی جگہ ایک سٹور کا ذکر کیا ہے، یہ سٹور بھی اب نہیں ہے اور اس وقت یہاں ایک بینک کی برانچ ہے۔ یہ ریستوران مال روڈ سے ریگل سینما کی طرف جانے والے راستے کے دائیں نکڑ کے قریب ہی تھا۔
آخر میں اے حمید کی اشفاق احمد کے بارے میں کتاب ’داستان گو‘ کو کھولتے ہیں۔
ایک دن پرانی یادیں تازیں کرنے کے لیے اے حمید ہمدمِ دیرینہ اشفاق احمد کے ساتھ شہر نوردی کے لیے نکلے تو ریگل کا بھی رخ کیا۔ ایک بڑے سٹور کو دیکھا اور ان وقتوں کو یاد کیا جب اس جگہ سٹینڈرڈ ہوا کرتا تھا اور جس کی خاص بات اینجلا کا رقص تھا۔
اے حمید نے اس زمانے کو حسرت سے یاد کرتے ہوئے لکھا:’... اب سٹینڈرڈ ہوٹل رہا نہ سٹینڈرڈ ہوٹل کی ڈانسر اینجلا رہی، جو رہی سو بے خبری رہی۔‘