Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور ہائی کورٹ کا پنجاب میں 90 دن میں انتخابات کرانے کا حکم

الیکشن کمیشن کے وکیل کا موقف تھا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن کمیشن تاریخ دے گا (فوٹو: اے ایف پی)
لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو 90 روز میں پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔
جمعے کی رات کو جسٹس جواد حسن نے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن فوری انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔ وہ 90 روز میں الیکشن کرانے کا پابند ہے۔‘
عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔
16 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت نے ہدایت کی ہے کہ ’الیکشن کمیشن اس بات کو یقینی بنائے کہ انتخابات 90 روز سے زائد تاخیر کا شکار نہ ہوں۔ بطور خودمختار آئینی ادارہ ہونے کی حیثیت سے الیکشن کمیشن قانون کے مطابق الیکشن کرانے اور الیکشن کے انتظامات کرانے کا پابند ہے۔‘
فیصلے کے متن کے مطابق ’آئین کا آرٹیکل 220 وفاقی اور صوبائی اداروں کو الیکشن کمیشن کی معاونت کا پابند کرتا ہے۔‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو تاریخی قرار دیا ہے۔
ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ’آج جسٹس جواد حسن نے عدلیہ کا مان رکھ لیا، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے۔ آئین کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے اور آج کا فیصلہ آئین اور قانون کی فتح ہے۔ وفاقی حکومت ہمارے ساتھ بیٹھے اور قومی الیکشن پر بات چیت کرے۔‘
سابق وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے بھی فیصلے کو خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’عدلیہ سے انصاف کی امید تھی عدلیہ نے آئین کی سربلندی قائم رکھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اب دیر نہیں کرنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن فوری الیکشن شیڈول کا اعلان کرے۔‘
قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ نہ دینے کے خلاف دائر درخواستوں پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
حتمی دلائل میں الیکشن کمیشن کے وکیل کا موقف تھا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن کمیشن تاریخ دے گا۔
گورنر کے وکیل نے کہا کہ نگران کابینہ کی موجودگی میں گورنر کا تاریخ دینا لازم نہیں۔
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر، سبطین خان، علی افضل ساہی بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔
تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے۔ آئی جی پنجاب عثمان انور بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس جواد حسن نے آئی جی سے پوچھا کہ آپ الیکشن کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
ان کا  کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنی تجاویز الیکشن کمیشن کو دے دی ہیں۔ انتخابات سے متعلق جو بھی فیصلہ ہو گا ہم اس پر عملدرآمد کریں گے۔‘
سماعت کے دوران چیف سیکریٹری پنجاب نے بتایا کہ ’ہم عدالت اور الیکشن کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔‘

الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’ہمیں الیکشن کرانے کے لیے 14 ارب کی ضرورت ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

الیکشن کمیشن کے وکیل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیس صرف الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے ہے اور تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کیس میں الیکشن کمیشن کو فریق نہیں بنایا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وفاقی حکومت نے الیکشن کے لیے فنڈز جاری کرنا ہوتے ہیں جبکہ پنجاب پولیس اور عدلیہ سمیت دیگر اداروں نے عملہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’ہمیں الیکشن کرانے کے لیے 14 ارب کی ضرورت ہے۔‘
جنرل الیکشن کی تاریخ نہ دیے جانے کے خلاف پی ٹی آئی رہنما اسد عمر اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت جمعرات کو شروع ہوئی تھی۔

’یہ 90 روز کو 11 سال پر لے جانا چاہتے ہیں‘

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے لاہور ہائیکورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن ہوں گے یا پھر قومی تحریک چلے گی۔‘
انہوں  نے مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کو جنرل ضیا کی ایکسٹینشن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ ’یہ سب جنرل ضیا کو فالو کرنا چاہتے ہیں، ہم کہتے ہیں ضیا نہیں آئین کو فالو کریں۔‘
فواد چوہدری کا کہنا تھا یہ 90 دنوں کو 11 سال پر لے کر جانا چاہتے ہیں۔
’ہماری لڑائی ان کے خلاف ہے، اب دیکھتے ہیں کہ جمہوریت جیتتی ہے یا نہیں۔‘

شیئر: