Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا کے پاس جوہری معاہدے کا متبادل ایرانی عوام ہیں: جان بولٹن

جان بولٹن کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی اور اقوام متحدہ کے لیے سابق سفیر جان بولٹن اگست 2022 میں ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک اہلکار کی جانب سے قتل کی کوشش کے بعد سیکرٹ سروس کے حفاظتی حصار میں رہتے ہیں۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے جان بولٹن نے کہا کہ ’یہ مکمل طور پر آزادانہ گھومنے پھرنے سے مختلف طرح کی زندگی ہے۔ لیکن جب میں دوسرے پہلو پر سوچتا ہوں تو سیکرٹ سروس کا شکرگزار ہوتا ہوں۔‘
جان بولٹن ایرانی حکومت کے بارے میں سخت خیالات رکھتے ہیں اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی حکمت عملی کے پیچھے تحریک دینے والی قوت کے طور پر جانے جاتے ہیں، قتل کی سازش کے بعد ان کے موقف میں مزید سختی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک اور چھوٹی وجہ ہے کہ وہ (موجودہ) ایرانی حکومت کی جگہ ایک ایسی حکومت دیکھنا چاہتے ہیں جو واقعی ایرانی عوام کی امنگوں کی عکاسی کرتی ہو۔‘
عدالتی دستاویزات کے مطابق امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے ایران کے فوجی اہلکار شہرام پورصفی پر جنوری 2020 میں الزام لگایا گیا تھا کہ وہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے بولٹن کو قتل کرنے کی سازش کر رہے تھے۔

مسیح علی نژاد کا شمار ایرانی حکومت کے سخت ناقدین میں ہوتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شہرام پورصفی کی گرفتاری کے وقت نیو یارک میں ناول نگار سلمان رشدی پر چاقو سے حملہ کیا گیا۔ اس حملے کے پیچھے اگر براہ راست ایران نہیں ہے تو بھی مصنف کے خلاف حکومت کے 1989 کا فتوٰی اس کی وجہ ضرور بنا ہے۔
پھر رواں برس جنوری کے آخر میں محکمہ انصاف نے تین افراد پر ایرانی نژاد امریکی صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن مسیح علی نژاد کو قتل کرنے کی ایک مبینہ سازش، جس کے پیچھے ایران تھا، کے الزام میں فرد جرم عائد کی۔
مسیح علی نژاد کا شمار ایرانی حکومت کے سخت ناقدین میں ہوتا ہے۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بولٹن نے امریکی حکام اور (ایرانی) حکومت کے بیرون ملک مخالفین کے خلاف ایران کے ان اقدامات کو ’حالیہ وقتوں میں انوکھا‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’(وہ دھمکیاں) حقیقت میں خود حکومت کی دہشت گردانہ بنیاد کو ظاہر کرتی ہیں، (اور) ان پر کیوں بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ چاہے وہ جوہری معاہدے کے حوالے سے ہوں یا کچھ اور، حقیقت میں وہ وہی کرتے ہیں، جس کا عہد کرتے ہیں۔‘

بائیڈن انتظامیہ اور اس کے یورپی اتحادی ایران کے ساتھ سنہ 2015 کا جوہری معاہدہ بحال کرنا چاہتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تہران کی جانب سے حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن شروع کرنے کے بعد سے حالیہ مہینوں میں مغربی رہنماؤں نے ایران کے خلاف سخت بیانات دیے ہیں۔
ایرانی عوام گزشتہ برس ستمبر میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سڑکوں پر نکل آئے تھے اور ملک میں خواتین کے ساتھ سلوک اور بدتر معاشی حالات کے خلاف بھرپور تحریک چلی۔
تاہم اس سب کے باوجود بائیڈن انتظامیہ اور اس کے یورپی اتحادی ایران کے ساتھ سنہ 2015 کا جوہری معاہدہ بحال کرنا چاہتے ہیں۔ ایرانی حکومت کو جوہری پروگرام کو ترک کرنے کے بدلے میں اس پر عائد پابندیوں میں ریلیف کی پیشکش کی گئی ہے۔
اس حوالے سے جان بولٹن نے کہا کہ ’میں واضح طور پر سمجھتا ہوں کہ بائیڈن انتظامیہ اب بھی اس معاہدے میں واپس جانا چاہتی ہے۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ کسی طرح کے حملے کی دھمکی دینا بھی اب ضروری نہیں ہے کیونکہ جوہری معاہدے کا متبادل ’ایرانی عوام ہیں۔‘

ایرانی عوام گزشتہ برس ستمبر میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’وہ پورے ملک میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اور وہ اب ’مرگ بر امریکہ‘ نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ’مرگ بر آیت اللہ خامنہ ای‘ کہہ رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ حکومت اب عوامی حمایت سے برسراقتدار نہیں ہے، یہ سب تھا لیکن اب ختم ہو گیا ہے۔ اب یہ بندوق کی نالی سے حکومت کر رہے ہیں اور میرے خیال میں اس حکومت کا اختتام تب ہو گا جب اعلٰی فوجی قیادت میں دراڑ پڑے گی۔‘

شیئر: